باب: جو شخص عصر کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پہلے پڑھ سکا تو اس کی نماز ادا ہو گئی۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever got (or was able to offer) only one Rak'a of the 'Asr prayer before sunset)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
556.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کر لے۔ اور جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کرے۔‘‘
تشریح:
(1) عنوان میں رکعت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں ایک سجدے کے پا لینے کا بیان ہے۔ امام بخاری ؒ اس عنوان کے ذریعے سے حدیث کی تشریح کرتے ہیں کہ اس مقام پر سجدے سے مراد رکعت ہے کیونکہ سجدے پر رکعت مکمل ہوتی ہے، اس لیے آخری جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں"سجدة" کے بجائے"رکعة" کا لفظ ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:579) (2) ادراک کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت پا لینے سے اسے نماز کا وقت مل گیا ہے، اسے چاہیے کہ بقیہ رکعات ادا کرکے اپنی نماز مکمل کر لے۔ جیسا کہ سنن بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے طلوع شمس سے پہلے صبح کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت طلوع آفتاب کے بعد ادا کی تو اس نے نماز کو پا لیا۔ اور اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ روایت ہے کہ جس نے غرب آفتاب سےپہلے ایک رکعت پڑھ لی اور بقیہ رکعات کو غروب آفتاب کے بعد ادا کیا تو اس کی نماز عصر فوت نہیں ہوئی۔ (فتح الباري :75/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری کا مقصود یہ ہے کہ اگر غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت بھی مل گئی، خواہ باقی رکعات غروب کے بعد پڑھی گئی ہوں تو بھی نماز ہو گئی، اسے قضا ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام بخاری کو اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امام شافعی نے وقت عصر کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:
٭وقت مستحب: زوال آفتاب کے بعد جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔
٭ وقت جواز قدرے فضیلت کےساتھ: دومثل سایہ ہونے تک ہے۔
٭مجرد وقت جواز: دومثل مکمل سایہ ہونے کے بعد دھوپ کے زرد ہونے تک ہے۔
٭وقت ضرورت:زردئ آفتاب کے بعد درجۂ مجبوری کا وقت ہے۔ اس وقت تک مؤخر کرنے والا نمازی گناہ گار بھی ہو گا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نماز وقت ضرورت میں ادا کرے تو اگرچہ اس کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو، فریضۂ نماز ادا ہو جائے گا، یہ اور بات ہے کہ تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ وقت ضرورت تک نماز مؤخر کرنے کے باوجود قضا اور اعادے کی ضرورت نہیں۔ والله أعلم.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
550
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
556
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
556
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
556
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ وقت عصر کی انتہا بیان کرنا چاہتے ہیں کہ عصر کا وقت غروب آفتاب تک رہتا ہے کیونکہ اوقات نماز کے یہی مناسب ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کر لے۔ اور جو شخص طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لے تو وہ اپنی نماز کو پورا کرے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) عنوان میں رکعت کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں ایک سجدے کے پا لینے کا بیان ہے۔ امام بخاری ؒ اس عنوان کے ذریعے سے حدیث کی تشریح کرتے ہیں کہ اس مقام پر سجدے سے مراد رکعت ہے کیونکہ سجدے پر رکعت مکمل ہوتی ہے، اس لیے آخری جز بول کر کل مراد لیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بعض روایات میں"سجدة" کے بجائے"رکعة" کا لفظ ہے۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:579) (2) ادراک کے معنی یہ ہیں کہ ایک رکعت پا لینے سے اسے نماز کا وقت مل گیا ہے، اسے چاہیے کہ بقیہ رکعات ادا کرکے اپنی نماز مکمل کر لے۔ جیسا کہ سنن بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے طلوع شمس سے پہلے صبح کی ایک رکعت پڑھی اور دوسری رکعت طلوع آفتاب کے بعد ادا کی تو اس نے نماز کو پا لیا۔ اور اس سے زیادہ صراحت کے ساتھ یہ روایت ہے کہ جس نے غرب آفتاب سےپہلے ایک رکعت پڑھ لی اور بقیہ رکعات کو غروب آفتاب کے بعد ادا کیا تو اس کی نماز عصر فوت نہیں ہوئی۔ (فتح الباري :75/2) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری کا مقصود یہ ہے کہ اگر غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت بھی مل گئی، خواہ باقی رکعات غروب کے بعد پڑھی گئی ہوں تو بھی نماز ہو گئی، اسے قضا ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔ امام بخاری کو اہتمام کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ امام شافعی نے وقت عصر کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے:
٭وقت مستحب: زوال آفتاب کے بعد جب کسی چیز کا سایہ اس کے برابر ہوجائے۔
٭ وقت جواز قدرے فضیلت کےساتھ: دومثل سایہ ہونے تک ہے۔
٭مجرد وقت جواز: دومثل مکمل سایہ ہونے کے بعد دھوپ کے زرد ہونے تک ہے۔
٭وقت ضرورت:زردئ آفتاب کے بعد درجۂ مجبوری کا وقت ہے۔ اس وقت تک مؤخر کرنے والا نمازی گناہ گار بھی ہو گا۔ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اگر نماز وقت ضرورت میں ادا کرے تو اگرچہ اس کا کچھ حصہ ہی کیوں نہ ہو، فریضۂ نماز ادا ہو جائے گا، یہ اور بات ہے کہ تاخیر کی وجہ سے گناہ گار ہوگا۔ مطلب یہ ہے کہ وقت ضرورت تک نماز مؤخر کرنے کے باوجود قضا اور اعادے کی ضرورت نہیں۔ والله أعلم.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر عصر کی نماز کی ایک رکعت بھی کوئی شخص سورج غروب ہونے سے پہلے پا سکا تو پوری نماز پڑھے (اس کی نماز ادا ہوئی نہ قضا) اسی طرح اگر سورج طلوع ہونے سے پہلے فجر کی نماز کی ایک رکعت بھی پا سکے تو پوری نماز پڑھے۔
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے ذیل میں حضرت العلام مولانا نواب وحیدالزماں خان صاحب ؒ کے تشریحی الفاظ یہ ہیں: اس پر تمام ائمہ اورعلماء کا اجماع ہے۔ مگر حنفیوں نے آدھی حدیث کو لیا ہے اورآدھی کو چھوڑ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عصر کی نماز تو صحیح ہو جائے گی لیکن فجر کی صحیح نہ ہوگی، ان کا قیاس حدیث کے برخلاف ہے اور خود ان ہی کے امام کی وصیت کے مطابق چھوڑ دینے کے لائق ہے۔ بیہقی میں مزید وضاحت یوں موجود ہے: ''من أدرك رکعة من الصبح فلیصل إلیها أخری'' ’’جو فجر کی ایک رکعت پالے اورسورج نکل آئے تو وہ دوسری رکعت بھی اس کے ساتھ ملالے اس کی نماز فجر صحیح ہو گی۔‘‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ مبارک پوری ؒ فرماتے ہیں: ''ويؤخذ من هذا الرد على الطحاوي حيث خص الإدراك باحتلام الصبي، وطهر الحائض و إسلام الكافر، ونحوها، وأراد بذلك نصرة مذهبه في أن من أدرك من الصبح ركعة تفسد صلاته؛ لأنه لا يكملها إلا في وقت الكراهة - انتهى. والحديث يدل على أن من أدرك ركعة من صلاة الصبح قبل طلوع الشمس فقد أدرك صلاة الصبح ولا تبطل بطلوعها، كما أن من أدرك ركعة من صلاة العصر قبل غروب الشمس فقد أدرك صلاة العصر ولا تبطل بغروبها، وبه قال مالك والشافعي وأحمد وإسحاق، وهو الحق۔''(مرعاة المفاتیح، ج1، ص:398)’’اس حدیث مذکور سے امام طحاوی ؒ کا رد ہوتاہے جنھوں نے حدیث مذکورہ کو اس لڑکے کے ساتھ خاص کیاہے جو ابھی ابھی بالغ ہوا یا کوئی عورت جو ابھی ابھی حیض سے پاک ہوئی یا کوئی کافر جو ابھی ابھی اسلام لایا اور ان کوفجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے مل گئی توگویا یہ حدیث ان کے ساتھ خاص ہے۔ اس تاویل سے امام طحاوی ؒ کا مقصد اپنے مذہب کی نصرت کرنا ہے۔ جو یہ ہے کہ جس نے صبح کی ایک رکعت پائی اور پھر سورج طلوع ہوگیا، تواس کی نماز باطل ہوگئی، اس لیے کہ وہ اس کی تکمیل مکروہ وقت میں کررہاہے۔ یہ حدیث دلیل ہے کہ عام طور پر ہر شخص مراد ہے جس نے فجر کی ایک رکعت سورج نکلنے سے پہلے پالی اس کی ساری نماز کا ثواب ملے گا اوروہ نماز طلوع شمس سے باطل نہ ہوگی جیسا کہ کسی نے عصر کی ایک رکعت سورج چھپنے سے قبل پالی تواس نے عصرکی نماز پالی اور وہ غروب شمس سے باطل نہ ہوگی۔ امام شافعی ؒ ، مالک ؒ ، احمد واسحاق ؒ سب کا یہی مذہب ہے اوریہی حق ہے۔‘‘
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "If anyone of you can get one Rak'a of the 'Asr prayer before sunset, he should complete his prayer. If any of you can get one Rak'a of the Fajr prayer before sunrise, he should complete his prayer."