باب: قربانی کا کتنا گوشت کھایا جائے اورکتناجمع کرکے رکھا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: What may be eaten of the meat of sacrifices and what may be taken as journey food)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5570.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے گوشت کو نمک لگا کر رکھ دیتے تھے پھر اسے ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ”قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک نہ کھاؤ۔“ یہ حکم کوئی ضروری نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم قربانی کا گوشت ان لوگوں کو بھی کھلائیں جن کے ہاں قربانی نہ ہوئی ہو۔ واللہ أعلم
تشریح:
(1) حضرت عابس بن ربیعہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع فرمایا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’صرف ایک سال یہ پابندی عائد کی تھی، جب قحط کی وجہ سے لوگوں میں بھوک نے ڈیرے ڈال دیے تھے تو آپ نے چاہا کہ مال دار لوگ، غریبوں کو کھلائیں اور ان کی مشقت میں ان کا تعاون کریں۔‘‘(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5423) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے غریب لوگوں کی غربت کی وجہ سے تین دن سے زیادہ گوشت کھانے سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس محتاج بن کر آئے تھے، اب کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5103 (1971)) اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والا خود بھی کھائے، دوستوں کو ہدیہ بھی دے اور غریبوں کو بھی کھلائے۔ (فتح الباري: 34/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5358
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5570
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5570
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5570
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا ہم مدینہ طیبہ میں قربانی کے گوشت کو نمک لگا کر رکھ دیتے تھے پھر اسے ہم نبی ﷺ کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ”قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک نہ کھاؤ۔“ یہ حکم کوئی ضروری نہیں تھا بلکہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ہم قربانی کا گوشت ان لوگوں کو بھی کھلائیں جن کے ہاں قربانی نہ ہوئی ہو۔ واللہ أعلم
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عابس بن ربیعہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ تک کھانے سے منع فرمایا تھا؟ تو آپ نے فرمایا: ’’صرف ایک سال یہ پابندی عائد کی تھی، جب قحط کی وجہ سے لوگوں میں بھوک نے ڈیرے ڈال دیے تھے تو آپ نے چاہا کہ مال دار لوگ، غریبوں کو کھلائیں اور ان کی مشقت میں ان کا تعاون کریں۔‘‘(صحیح البخاري، الأطعمة، حدیث: 5423) صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں نے غریب لوگوں کی غربت کی وجہ سے تین دن سے زیادہ گوشت کھانے سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس محتاج بن کر آئے تھے، اب کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو۔‘‘ (صحیح مسلم، الأضاحي، حدیث: 5103 (1971)) اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والا خود بھی کھائے، دوستوں کو ہدیہ بھی دے اور غریبوں کو بھی کھلائے۔ (فتح الباري: 34/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے اور ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے عمرہ بنت عبدالرحمن نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ مدینہ میں ہم قربانی کے گوشت میں نمک لگا کر رکھ دیتے تھے اور پھر اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں بھی پیش کرتے تھے پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ نہ کھایا کرو۔ یہ حکم ضروری نہیں تھا بلکہ آپ کا منشا یہ تھا کہ ہم قربانی کا گوشت (ان لوگوں کو بھی جن کے یہاں قربانی نہ ہوئی ہو) کھلائیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : We used to salt some of the meat of sacrifice and present it to the Prophet (ﷺ) at Medina. Once he said, "Do not eat (of that meat) for more than three days." That was not a final order, but (that year) he wanted us to feed of it to others, Allah knows better.