باب: قربانی کا کتنا گوشت کھایا جائے اورکتناجمع کرکے رکھا جائے
)
Sahi-Bukhari:
Al-Adha Festival Sacrifice (Adaahi)
(Chapter: What may be eaten of the meat of sacrifices and what may be taken as journey food)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5574.
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قربانی کا گوشت تین دن تک کھاؤ۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنه منیٰ سے کوچ کرتے وقت زیتون کے تیل سے روٹی کھاتے تھے کیونکہ وہ قربانی کے گوشت سے اجتناب کرتے تھے۔
تشریح:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کا گوشت صرف تین دن تک استعمال کرتے تھے اور جب دن ختم ہو جاتے تھے تو قربانی کا گوشت استعمال نہ کرتے بلکہ زیتون کے تیل سے روٹی کھاتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی جس میں اس پابندی کو اٹھا لینے کا ذکر ہے، اگر انہیں اس کا علم ہوتا تو اس قدر تکلف نہ کرتے۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کے گوشت اور ہدی کے گوشت کو ایک ہی درجے میں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے آخر میں ہدی کے گوشت کا ذکر ہے جبکہ آغاز حدیث میں قربانی کے گوشت کا بیان تھا۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 37/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5362
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5574
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5574
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5574
تمہید کتاب
لفظ أضاحي، أضحية کی جمع ہے۔ اس سے مراد قربانی ہے۔ أضحية ہمزہ کی زیر اور پیش دونوں طرح پڑھا جاتا ہے۔ عربی زبان میں اس کی دو مزید لغتیں ہیں: ایک ضحية۔ اس کی جمع ضحايا اور دوسری أضحاة اس کی جمع أضحی ہے۔ اُردو زبان میں لفظ قربانی، قربان سے مشتق ہے۔ لغوی اعتبار سے قربانی سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کیا جائے، خواہ وہ ذبیحہ ہو یا اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز، لیکن اس مقام پر وہ جانور مراد ہے جو ماہ ذوالحجہ کی دسویں تاریخ یا ایام تشریق میں عید کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے تقرب کے لیے ذبح کیا جاتا ہے۔ یہ عمل ہر امت میں مشروع رہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر کیے ہیں تاکہ وہ ان مویشی قسم کے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دے رکھے ہیں۔" (الحج: 22/34)امت مسلمہ یہ عمل اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اور ان کے لخت جگر کی جاں نثاری کو تازہ رکھنے کے لیے کرتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نور چشم حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لیے ان کے گلے پر چھری رکھ دی تو اللہ تعالیٰ نے ایک مینڈھا بھیج دیا اور چھری اس پر چل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس قربانی کا پس منظر اور منظر بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے: "اے میرے پروردگار! مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرما، تو ہم نے اسے ایک بہت بردبار بیٹے کی بشارت دی، پھر جب وہ (بیٹا) ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک دن ابراہیم نے کہا: بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اب بتاؤ تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹے نے جواب دیا: ابا جان! وہی کچھ کیجیے جو آپ کو حکم ہوا ہے۔ آپ ان شاءاللہ مجھے صبر کرنے والا ہی پائیں گے۔ پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیم نے بیٹے کو کروٹ کے بل لٹا دیا تو ہم نے اسے آواز دی: اے ابراہیم! تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا، ہم نیکی کرنے والوں کو ایسے ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ یہ ایک صریح آزمائش تھی اور ہم نے ایک قربانی بطور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا اور پچھلے لوگوں میں اس کی یادگار چھوڑ دی، ابراہیم پر سلام ہو۔" (الصفت: 37/100)ہم مسلمان دس ذوالحجہ کو قربانیاں دے کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس یادگار کو تازہ کرتے ہیں۔ ہمارے لیے اس عمل کی مشروعیت قرآن سے ثابت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجیے۔" (الکوثر: 108/2) نیز فرمایا: "قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنائے ہیں۔ ان میں تمہارے لیے بڑا نفع ہے۔" (الحج: 22/36) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و عمل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ مسلمان ابتدا ہی سے اس پر کاربند ہیں۔ اس عظیم مقصد کے لیے اونٹ، گائے، بکری اور بھیڑ نر و مادہ کو ذبح کیا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا جانور اس میں کارآمد نہیں ہوتا۔ قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور غم گساری بھی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "پھر جب ان اونٹوں کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو انہیں خود بھی کھاؤ اور سوال نہ کرنے والوں، نیز سوال کرنے والوں دونوں کو کھلاؤ اس طرح ہم نے ان چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکر گزاری کرو۔" (الحج: 22/36) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قربانی کا نام (اضحیہ) اس وقت کے نام سے ماخوذ ہے جس میں اسے ذبح کیا جاتا ہے، یعنی چاشت کے وقت ذبح کی جاتی ہے۔ (فتح الباری: 10/5)امام بخاری رحمہ اللہ نے قربانی کے احکام و مسائل اور آداب و شرائط سے ہمیں آگاہ کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے اور اس میں چوالیس (44) مرفوع احادیث پیش کی ہیں، جن میں پندرہ (15) معلق اور انتیس (29) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان سے انتالیس (39) مکرر اور پانچ (5) خالص ہیں۔ ایک حدیث کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے سات (7) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ پھر ان احادیث و آثار پر چھوٹے چھوٹے سولہ (16) عنوان قائم کیے ہیں۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ قربانی کرنا سنت ہے۔ ٭ امام قربانی کے جانور خود تقسیم کرے۔ ٭ مسافروں اور عورتوں کی طرف سے قربانی کرنا۔ ٭ عیدگاہ میں قربانی کرنے کا حکم۔ ٭ قربانی اپنے ہاتھ سے کرنی چاہیے۔ ٭ جس نے دوسرے دن قربانی کی۔ ٭ قربانی، نماز عید کے بعد کرنی چاہیے۔ ٭ قربانی سے کتنا گوشت خود کھایا جائے۔ ہم نے جا بجا تشریحی نوٹ بھی لکھے ہیں تاکہ ان احادیث کا علی وجہ البصیرت مطالعہ کیا جائے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا مطالعہ کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش اور آپ کا ساتھ نصیب کرے۔ آمین یا رب العالمین
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قربانی کا گوشت تین دن تک کھاؤ۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنه منیٰ سے کوچ کرتے وقت زیتون کے تیل سے روٹی کھاتے تھے کیونکہ وہ قربانی کے گوشت سے اجتناب کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کا گوشت صرف تین دن تک استعمال کرتے تھے اور جب دن ختم ہو جاتے تھے تو قربانی کا گوشت استعمال نہ کرتے بلکہ زیتون کے تیل سے روٹی کھاتے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں وہ حدیث نہیں پہنچی جس میں اس پابندی کو اٹھا لینے کا ذکر ہے، اگر انہیں اس کا علم ہوتا تو اس قدر تکلف نہ کرتے۔ (2) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ قربانی کے گوشت اور ہدی کے گوشت کو ایک ہی درجے میں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ حدیث کے آخر میں ہدی کے گوشت کا ذکر ہے جبکہ آغاز حدیث میں قربانی کے گوشت کا بیان تھا۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 37/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انہیں ابن شہاب کے بھتیجے نے، انہیں ان کے چچا ابن شہاب (محمد بن مسلم) نے، انہیں سالم نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قر بانی کا گوشت تین دن تک کھاؤ۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ منیٰ سے کوچ کرتے وقت روٹی زیتون کے تیل سے کھاتے کیونکہ وہ قربانی کے گوشت سے (تین دن کے بعد) پرہیز کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
قربانی کرنے میں مالی اور جانی ایثار کے ساتھ ساتھ محتاجوں اور غریبوں کی ہمدردی اور مدد بھی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے، ﴿وَالْبُدْنَ جَعَلْنَاهَا لَكُمْ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ لَكُمْ فِيهَا خَيْرٌ فَاذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهَا صَوَافَّ فَإِذَا وَجَبَتْ جُنُوبُهَا فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَرَّ كَذَلِكَ سَخَّرْنَاهَا لَكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ﴾(الحج)اور قربانی کے اونٹ ہم نے تمہارے لیے اللہ کے نشانات مقرر کر دیئے ہیں ان میں تمہیں نفع ہے۔ پس انہیں کھڑا کر کے نام اللہ پڑھ کر نحر کرو۔ پھر جب ان کے پہلو زمین سے لگ جائیں تو اسے خود بھی کھاؤ، مسکینوں، سوال سے كرنے والوں اور سوال نہ کرنے والوں کو بھی کھلاؤ۔ اسی طرح ہم نے چوپایوں کو تمہارے ماتحت کر رکھا ہے تاکہ تم شکرگزاری کرو۔ معلوم ہوا کہ قربانی کے گوشت کو خود بھی کھاؤ اور غریبوں، محتاجوں، سوالیوں کو بھی کھلاؤ۔ قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنے چاہیئے۔ ایک حصہ اپنے لیے، ایک حصہ دوست واحباب کے لیے اور ایک حصہ غرباء اور مساکین کے لیے۔ (ابن کثیر)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim (RA) : 'Abdullah bin 'Umar said, "Allah's Apostle (ﷺ) said, "Eat of the meat of sacrifices (of 'Id al Adha) for three days." When 'Abdullah departed from Mina, he used to eat (bread with) oil, lest he should eat of the meat of Hadi (which is regarded as unlawful after the three days of the 'Id).