باب:اور اللہ تعالیٰ کے فرمان(درسورۂ مائدہ) کی تفیسر” بلا شبہ شراب ، جوا ، بت اور پانسے گندے کا م ہیں شیطان کے کاموں سے پس تم ان سے پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: "Intoxicants, gambling, Al-Ansab and Al-Azlam are an abomination of Shaitan's handiwork ...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5577.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےایک حدیث سنی ہے تمہیں وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا بیان نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ جہالت عام ہو گی اور علم کم ہو جائے گا زنا کاری بڑھ جائے گی، شراب نوشی کا دور دورہ ہو گا مرد کم ہوں گے اور عورتیں بکثرت ہوں گی حتیٰ کہ پچاس پچاس عورتوں کی نگرانی کرنے والا صرف ایک مرد ہوگا۔“
تشریح:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ بصرے میں بطور مبلغ تعینات تھے۔ جب انہوں نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت کوئی صحابی زندہ نہیں تھا، اس لیے انہوں نے فرمایا: اس حدیث کو میرے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کرے گا۔ (2) اس حدیث میں بکثرت شراب نوشی کو قیامت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شراب کا رسیا اگر اسی حالت میں مر گیا تو اللہ کے سامنے اسے بت پرست کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد: 272/1، و السلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 677) شراب نوشی کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی علاقے والے شراب کے استعمال پر اصرار کریں تو اسلامی حکومت کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3683)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5365
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5577
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5577
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5577
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
مشروبات میں سے کچھ حلال ہیں اور کچھ حرام۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلے حرام مشروبات کو بیان کیا ہے کیونکہ وہ حلال مشروبات کے مقابلے میں بہت تھوڑے ہیں، جب انسان ان سے واقف ہو گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ان کے علاوہ دیگر مشروبات حلال ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیا ہے۔ سیاق و سباق کے اعتبار سے مکمل ترجمہ حسب ذیل ہے: "اے ایمان والو! شراب، جوا، بت اور فال نکالنے کے تیر یہ سب ناپاک کام، اعمال شیطان میں سے ہیں، لہذا تم (ان سے) بچو تاکہ نجات پاؤ۔ شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے سبب تمہارے درمیان دشمنی اور بغض ڈال دے اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے بھی روک دے تو کیا تم ان (شیطانی کاموں) سے باز نہیں آؤ گے۔" (المائدۃ: 5/90،91)
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سےایک حدیث سنی ہے تمہیں وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا بیان نہیں کرے گا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ جہالت عام ہو گی اور علم کم ہو جائے گا زنا کاری بڑھ جائے گی، شراب نوشی کا دور دورہ ہو گا مرد کم ہوں گے اور عورتیں بکثرت ہوں گی حتیٰ کہ پچاس پچاس عورتوں کی نگرانی کرنے والا صرف ایک مرد ہوگا۔“
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت انس رضی اللہ عنہ بصرے میں بطور مبلغ تعینات تھے۔ جب انہوں نے یہ حدیث بیان کی تو اس وقت کوئی صحابی زندہ نہیں تھا، اس لیے انہوں نے فرمایا: اس حدیث کو میرے علاوہ اور کوئی بیان نہیں کرے گا۔ (2) اس حدیث میں بکثرت شراب نوشی کو قیامت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شراب کا رسیا اگر اسی حالت میں مر گیا تو اللہ کے سامنے اسے بت پرست کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔‘‘ (مسند أحمد: 272/1، و السلسلة الأحادیث الصحیحة، رقم: 677) شراب نوشی کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی علاقے والے شراب کے استعمال پر اصرار کریں تو اسلامی حکومت کو ان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کی اجازت ہے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3683)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث سنی جو تم سے اب میرے سوا کوئی اور نہیں بیان کرے گا۔ (کیونکہ اب میرے سوا کوئی صحابی زندہ موجود نہیں رہا ہے) آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ جہالت غالب ہو جائے گی اور علم کم ہو جائے گا، زنا کاری بڑھ جائے گی، شراب کثرت سے پی جانے لگے گی، عورتیں بہت ہو جائیں گی، یہاں تک کہ پچاس پچاس عورتوں کی نگرانی کرنے والا صرف ایک ہی مرد رہ جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
حضرت انس رضی اللہ عنہ بصرہ میں مبلغ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ ان کی وفات بصرہ میں سنہ91 ھ ہوئی۔ بصرہ میں یہ آخری صحابی تھے۔ ایک سو سال کی عمر پائی۔ رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : I heard from Allah's Apostle (ﷺ) a narration which none other than I will narrate to you. The Prophet, said, "From among the portents of the Hour are the following: General ignorance (in religious affairs) will prevail, (religious) knowledge will decrease, illegal sexual intercourse will prevail, alcoholic drinks will be drunk (in abundance), men will decrease and women will increase so much so that for every fifty women there will be one man to look after them."