باب: باذق ( انگور کے شیرہ کی ہلکی آنچ میں پکائی ہوئی شراب ) کے بارے میں
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: Al-Badhaq (a kind of alcoholic drink))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اس کے بارے میں جس نے کہا کہ ہر نشہ آور مشروب حرام ہے اور عمر ، ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ جب کوئی ایسا شربت ( طلا ) پک کر ایک مثلث تہائی رہ جائے تو اس کو پینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور براءبن عازب اور ابو جحیفہ رضی اللہ عنہما نے ( پک کر ) آدھا رہ جانے پر بھی پیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شیرہ جب تک تازہ ہو اسے پی سکتے ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عبیداللہ ( ان کے لڑکے ) کے منہ میں ایک مشروب کی بو کے متعلق سنا ہے میں اس سے پوچھوں گا اگر وہ پینے کی چیز نشہ آور ثابت ہوئی تو میں اس پر حد شرعی جاری کروں گا ۔تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تحقیق کی معلوم ہوا کہ وہ شراب آور مشروب ہے۔ آپ نے اس کو پوری حد لگائی ۔ اسے امام مالک نے وصل کیا ہے ۔ جب کسی پھل وغیرہ کا شیرہ اتنا پکایا جائے کہ اس کا تہائی حصہ صرف باقی رہ جائے تو وہ بگڑتا بھی نہیں اور نہ اس میں نشہ پیدا ہوتا ہے۔ روایت میں بھی یہی مراد ہے۔
5598.
سیدنا ابو جویریہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے باذق کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: کہ سیدنا محمد ﷺ باذق کے وجود سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بہرحال جو بھی چیز نشہ لائے وہ حرام ہے۔ ابو جویریہ نے کہا: باذق تو حلال و طیب ہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: انگور حلال و طیب تھا جب اس کی شراب بن گئی تو وہ حرام و خبیث ہے۔
تشریح:
جب کسی چیز میں نشہ پیدا ہو جائے تو اس کا نام بدل دینے سے وہ حرام، حلال نہیں بن جائے گا، ہاں اگر کوئی چیز حلال و طیب ہے تو وہ آگ پر جوش دینے سے حرام نہیں ہو گی جب تک کہ اس میں نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو جویریہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ، جو میٹھا ہوتا ہے، نوش کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: جب اس میں مٹھاس باقی رہے، یعنی ترش نہ ہو تو اسے پیا جا سکتا ہے۔ ایک موقوف روایت میں ہے: ’’آگ کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتی۔‘‘(سنن النسائي، الأشربة، حدیث: 5732) اصل دار و مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے۔ (فتح الباري: 84/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5387
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5598
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5598
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5598
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
باذق، بادہ کا معرب ہے۔ وہ شراب جو انگور نچوڑ کر اس کے شیرے سے بنائی جائے۔ اگر اسے تھوڑا سا پکا کر رکھیں جس سے وہ پتلا اور شفاف رہے تو اس کا استعمال جائز ہے۔ اگر اسے اتنا جوش دیں کہ نصف اڑ جائے اور نصف باقی رہ جائے تو اسے منصف اور اگر دو تہائی اڑنے کے بعد ایک تہائی باقی رہ جائے تو اسے مثلث کہا جاتا ہے۔ اسے طلاء بھی کہتے ہیں، یعنی وہ گاڑھا ہو کر اس لیپ کی طرح ہو جاتا ہے جو خارشی اونٹوں کو لگایا جاتا ہے۔ اگر اس میں نشہ پیدا ہو جائے تو بالاتفاق حرام ہے۔ نشہ پیدا ہونے سے پہلے پہلے اس کا استعمال جائز ہے۔ کچھ انگور ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے شیرے میں جلدی ترشی اور نشہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ جوش دینے سے جھاگ مارنا شروع کر دیتے ہیں۔ بہرحال حرمت کا دارومدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے۔ واللہ اعلم
اور اس کے بارے میں جس نے کہا کہ ہر نشہ آور مشروب حرام ہے اور عمر ، ابو عبیدہ بن جراح اور معاذ رضی اللہ عنہم کی رائے یہ تھی کہ جب کوئی ایسا شربت ( طلا ) پک کر ایک مثلث تہائی رہ جائے تو اس کو پینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور براءبن عازب اور ابو جحیفہ رضی اللہ عنہما نے ( پک کر ) آدھا رہ جانے پر بھی پیا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ شیرہ جب تک تازہ ہو اسے پی سکتے ہو ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے عبیداللہ ( ان کے لڑکے ) کے منہ میں ایک مشروب کی بو کے متعلق سنا ہے میں اس سے پوچھوں گا اگر وہ پینے کی چیز نشہ آور ثابت ہوئی تو میں اس پر حد شرعی جاری کروں گا ۔تشریح : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی تحقیق کی معلوم ہوا کہ وہ شراب آور مشروب ہے۔ آپ نے اس کو پوری حد لگائی ۔ اسے امام مالک نے وصل کیا ہے ۔ جب کسی پھل وغیرہ کا شیرہ اتنا پکایا جائے کہ اس کا تہائی حصہ صرف باقی رہ جائے تو وہ بگڑتا بھی نہیں اور نہ اس میں نشہ پیدا ہوتا ہے۔ روایت میں بھی یہی مراد ہے۔
حدیث ترجمہ:
سیدنا ابو جویریہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس ؓ سے باذق کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: کہ سیدنا محمد ﷺ باذق کے وجود سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ بہرحال جو بھی چیز نشہ لائے وہ حرام ہے۔ ابو جویریہ نے کہا: باذق تو حلال و طیب ہے۔ سیدنا ابن عباس ؓ نے فرمایا: انگور حلال و طیب تھا جب اس کی شراب بن گئی تو وہ حرام و خبیث ہے۔
حدیث حاشیہ:
جب کسی چیز میں نشہ پیدا ہو جائے تو اس کا نام بدل دینے سے وہ حرام، حلال نہیں بن جائے گا، ہاں اگر کوئی چیز حلال و طیب ہے تو وہ آگ پر جوش دینے سے حرام نہیں ہو گی جب تک کہ اس میں نشہ پیدا نہیں ہوتا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابو جویریہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: ہم انگوروں کو نچوڑ کر اس کا شیرہ، جو میٹھا ہوتا ہے، نوش کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: جب اس میں مٹھاس باقی رہے، یعنی ترش نہ ہو تو اسے پیا جا سکتا ہے۔ ایک موقوف روایت میں ہے: ’’آگ کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتی۔‘‘(سنن النسائي، الأشربة، حدیث: 5732) اصل دار و مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے۔ (فتح الباري: 84/10)
ترجمۃ الباب:
جس نے ہر نشہ آور مشروب سے منع کیا۔ حضرت عمر، حضرت ابو عبیدہ بن جراح اور حضرت معاذ بن جبل ؓ کی رائے ہے کہ جب کوئی طلا پک کر ایک تہائی رہ جائے تو اس کا پینا جائز ہے۔ حضرت براء بن عاذب اور حضرت ابو حجیفہ ؓ نصف رہ جانے کے بعد بھی اسے نوش کرلیتے تھےحضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کہ جوس جب تک تازہ رہے اسے نوش کرسکتے ہیںحضرت عمر ؓنے فرمایا: میں نے عبید اللہ کے منہ سے شراب کی بو پائی ہے میں اس کے متعلق تحقیق کروں گا اگر وہ(پینے کی چیز) نشہ آور ثابت ہوئی تو میں اس پر شرعی حد جاری کروں گا
فائدہ: باذق بادہ کا معرب ہے، وہ شراب جو انگور نچوڑ کر اس کے شیرے سے بنائی جائے، اگر اسے تھوڑا سا پکا کر رکھیں جس سے وہ رقیق اور شفاف رہے تو اس کا استعمال جائز ہے اگر اسے اتنا جوش دیں کہ نصف اڑ جائے اور نصف باقی رہ جائے تو اسے منصف اور اگر دوتہائی اڑنے کے بعد تہائی باقی رہ جائے تو اسے مثلث کہا جاتا ہے، اسے طلاء بھی کہتے ہیں یعنی وہ گاڑھا ہوکر اس لیپ کی طرح ہوجاتا ہے جو خارشی اونٹووں کو لگائی جاتی ہے اگر اس میں نشہ پیدا ہوجائے تو بالاتفاق حرام ہے۔ نشہ پیدا ہونے سے پہلے پہلے اس کا استعمال جائز ہے بہر حال دارمدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے۔ واللہ اعلم
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابو الجویریہ نے، کہا کہ میں نے ابن عباس ؓ سے باذق (انگور کا شیرہ ہلکی آنچ دیا ہوا) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ حضرت محمد ﷺ باذق کے وجود سے پہلے ہی دنیا سے رخصت ہو گئے تھے جو چیز بھی نشہ لائے وہ حرام ہے۔ ابو الجویریہ نے کہا کہ باذق تو حلال و طیب ہے۔ ابن عباس ؓ نے کہا کہ انگور حلال طیب تھا جب اس کی شراب بن گئی تو وہ حرام خبیث ہے۔ (نہ کہ حلال طیب)
حدیث حاشیہ:
بعض قدماء شاعر نے سچ کہا ہے و أشربھا و أزعمھا حراما و أرجو عفو ربي ذي امتنانیعنی میں شراب پیتا ہوں اور اسے حرام بھی جانتا ہوں مگر مجھے اپنے کی طرف سے معافی کی امید ہے کہ وہ بہت ہی احسان کرنے والا ہے۔و یشربھا و یزعمھا حلالا و تلك علی المسمیٰ خطیئتاناور شرابی جو اسے پیئے اور حلال جانے یہ ایسے گنہگار کے حق میں دو گنا گناہ ہے۔ بہر حال حرام ہے اسے حلال جاننا کفر ہے۔ باذق بادہ کا معرب ہے وہ شراب جو انگور کا شیرہ نکال کر پکا لی جائے یعنی تھوڑا سا پکائیں کہ وہ رقیق اور صاف رہے۔ اگر اسے اتنا پکائیں کہ آدھا جل جائے تو اسے منصف کہیں گے اور اگر دو تہائی جل جائے تو اسے مثلث کہیں گے۔ اسے طلاء بھی کہتے ہیں کہ وہ گاڑھا ہو کر اس لیپ کی طرح ہو جاتا ہے جو خارش والے اونٹوں پر لگاتے ہیں۔ منصف کا پینا درست ہے اگر اس میں نشہ ہو جائے تو وہ بالاتفاق حرام ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Al-Juwairiyya (RA) : I asked Ibn 'Abbas (RA) about Al-Badhaq. He said, "Muhammad prohibited alcoholic drinks before It was called Al-Badhaq (by saying), 'Any drink that intoxicates is unlawful.' I said, 'What about good lawful drinks?' He said,'Apart from what is lawful and good, all other things are unlawful and not good (unclean Al-Khabith).