باب: اس بیان میں کہ گدری اور پکتہ کھجور ملا کر بھگونے سے جس نے منع کیا ہے نشہ کی وجہ سے اسی وجہ سے دو سالن ملانا منع ہے
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: Unripe-date drink and ripe-date drink should not be mixed if it is an intoxicant, and two cooked foods should not be put in one dish)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5600.
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابو طلحہ، سیدنا ابو دجانہ اور سہل بن بیضا ؓ کو نیم پختہ اور پختہ کھجوروں کا آمیزہ پلا رہا تھا (جو نشہ آور تھا) کہ اچانک حرمت شراب کا حکم آ گیا۔ اسکے بعد میں نے اسے زمین پر پھینک دیا۔ میں ہی انہیں پلا رہا تھا کیونکہ میں ان سب سے کم عمر تھا۔ ہم اس قسم نبیذ کو اس وقت شراب ہی کہتے تھےعمرو بن حارث نے کہا کہ ہمیں قتادہ نے بیان کیا اور انہوں نے سیدنا انس ؓ سے سنا۔
تشریح:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ تازہ اور خشک کھجور سے تیار کردہ نبیذ پینا جو نشہ آور ہو جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حرمت شراب کے بعد اس نبیذ کو ضائع کر دیا گیا۔ اس قسم کے نبیذ کو اتنا جوش دیا جاتا کہ گٹھلی ختم ہو جاتی، پھر اس میں نشہ پیدا ہو جاتا۔ اس کی ممانعت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس سے منع کرتے تھے کہ کھجور کو اس قدر پکائیں کہ اس کی گٹھلی ہی ختم ہو جائے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3706) (2) اگر دو پھلوں کے گودے اس طرح ملائے جائیں کہ ان میں شدت نہ آئے، اور نہ تخمیر ہی کا عمل پیدا ہو تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منقیٰ کا نبیذ بنایا جاتا، پھر اس میں کھجور ڈال دی جاتی، یا کھجور سے نبیذ بنایا جاتا، پھر اس میں منقیٰ ڈال دیا جاتا تھا۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3707)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5389
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5600
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5600
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5600
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
دور جاہلیت میں نشہ آور نبیذ بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ پختہ اور نیم پختہ کھجور کا گودا پانی میں ملا کر اسے جوش دیا جاتا، پھر اسے اتنی دیر تک رکھ دیا جاتا کہ اس میں شدت آ جائے اور نشہ پیدا ہو جائے۔ عنوان میں اس طرح کے نبیذ کی ممانعت کا ذکر ہے۔ اسی طرح دو طرح کے سالن ایک جگہ جمع کرنا اسراف کی ایک قسم ہے جو ایک مسلمان کی شان کے خلاف ہے، لہذا ایسے فضول کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
سیدنا انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابو طلحہ، سیدنا ابو دجانہ اور سہل بن بیضا ؓ کو نیم پختہ اور پختہ کھجوروں کا آمیزہ پلا رہا تھا (جو نشہ آور تھا) کہ اچانک حرمت شراب کا حکم آ گیا۔ اسکے بعد میں نے اسے زمین پر پھینک دیا۔ میں ہی انہیں پلا رہا تھا کیونکہ میں ان سب سے کم عمر تھا۔ ہم اس قسم نبیذ کو اس وقت شراب ہی کہتے تھےعمرو بن حارث نے کہا کہ ہمیں قتادہ نے بیان کیا اور انہوں نے سیدنا انس ؓ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں وضاحت ہے کہ تازہ اور خشک کھجور سے تیار کردہ نبیذ پینا جو نشہ آور ہو جائز نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ حرمت شراب کے بعد اس نبیذ کو ضائع کر دیا گیا۔ اس قسم کے نبیذ کو اتنا جوش دیا جاتا کہ گٹھلی ختم ہو جاتی، پھر اس میں نشہ پیدا ہو جاتا۔ اس کی ممانعت ایک دوسری حدیث میں ہے، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اس سے منع کرتے تھے کہ کھجور کو اس قدر پکائیں کہ اس کی گٹھلی ہی ختم ہو جائے۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3706) (2) اگر دو پھلوں کے گودے اس طرح ملائے جائیں کہ ان میں شدت نہ آئے، اور نہ تخمیر ہی کا عمل پیدا ہو تو اس کی ممانعت نہیں ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے منقیٰ کا نبیذ بنایا جاتا، پھر اس میں کھجور ڈال دی جاتی، یا کھجور سے نبیذ بنایا جاتا، پھر اس میں منقیٰ ڈال دیا جاتا تھا۔ (سنن أبي داود، الأشربة، حدیث: 3707)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس ؓ نے بیان نے کیا کہ میں نے حضرت ابو طلحہ، حضرت ابو دجانہ اور سہیل بن بیضاءؓ کوکچی کھجور کی ملی ہوئی نبیذ پلا رہا تھا کہ شراب حرام کر دی گئی اور میں نے موجودہ شراب پھینک دی۔ میں ہی انہیں پلا رہا تھا میں سب سے کم عمر تھا۔ ہم اس نبیذ کو اس وقت شراب ہی سمجھتے تھے اور عمر و بن حارث راوی نے بیان کیا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا، انہوں نے انس ؓ سے سنا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : While I was serving Abu Talha. Abu Dujana and Abu Suhail bin Al-Baida' with a drink made from a mixture of unripe and ripe dates, alcoholic drinks, were made unlawful, whereupon I threw it away, and I was their butler and the youngest of them, and we used to consider that drink as an alcoholic drink in those days