مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا کہاللہ پاک لید اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے جو پینے والوں کو خوب رچتا پچتا ہے ۔تشریح :قال ابن التین الحال التفنن فی ھذہ الترجمۃ یرد قول من زعم ان اللبن فرد ذالک بالنصوص ( ماجہ ) یعنی ابن تین کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس باب میں ان لوگوں کے خیال کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو نشہ لے آتا ہے۔ ( فتح الباری ) وھذہ الایۃ صریحۃ فی احلال شراب لبن الانعام بجمیع افرادھم موقع الامتنان بہ یعم جمیع البان الانعام فی حال حیاتھا ( فتح ) یعنی یہ آیت صاف دلیل ہے اس امر پر کہ جملہ انعام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال ہے اور بحالت زندگی تمام انعام چوپائے حلال جانور اس میں داخل ہیں۔
5610.
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جب سدرۃ المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو میں نے وہاں چار نہریں دیکھیں: ان میں سے دو ظاہری تھیں اور دو باطنی۔ ظاہری نہریں تو نیل اور فرات ہیں اور باطنی نہیریں جنت میں تھیں۔ پھر مجھے تین پیالے پیش کیے گئے۔ ایک پیالے میں دودھ اور دوسرے میں شہد تھا جبکہ تیسرے پیالے میں شراب تھی میں نے وہ پیالہ لیا جس میں دودھ تھا اور اسے میں نے نوش جاں کیا اس لیے انتخاب پر مجھے کہا گیا: آپ نے اور آپ کی امت نے اصل فطرت کو پالیا ہے۔ ہشام سعید اور ہمام نے حضرت قتادہ سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے یہ حدیث بیان کی ہے، اس میں نہروں کا ذکر تو اسی طرح ہے لیکن تین پیالوں کا ذکر نہیں ہے۔
تشریح:
(1) ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے دودھ کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ احادیث اس موقف کی تردید کے لیے پیش کی ہیں کہ زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے، لہذا اسے زیادہ نہیں پینا چاہیے، لیکن اس موقف کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ دودھ کا پینا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہے۔ اگر کسی کو زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے تو اسے اپنے مزاج کی اصلاح کرنی چاہیے، اس میں دودھ کا کوئی قصور نہیں، یا پھر دودھ کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر نقصان دہ بنایا جاتا ہے، چنانچہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے شراب کے متعلق سوال کیا، یعنی فلاں علاقے والے فلاں فلاں چیز سے شراب کشید کرتے ہیں۔ اس نے پانچ قسم کی مرکب شرابوں کا ذکر کیا۔ ان میں سے مجھے وہی شراب یاد ہے جو شہد، جو اور دودھ سے تیار کی جاتی تھی۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں اس وقت سے بہت پریشان تھا کہ میں دودھ کے متعلق دوسروں کو بتاؤں حتی کہ مجھے دودھ سے تیار کردہ ایسی شراب کا علم ہوا جس کے استعمال سے انسان فورا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 89/10) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ آخری حدیث میں ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے جن میں ایک دودھ کا، دوسرا شہد کا اور تیسرا شراب کا تھا۔ شراب کو پسند نہ کرنے کی وجہ حدیث میں بیان ہوئی ہے لیکن شہد کو آپ نے کیوں پسند نہ کیا، حالانکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو شہد اور میٹھی چیز بہت مرغوب تھی، شاید اس میں یہ راز ہو کہ دودھ زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور گوشت پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مجرد استعمال قوت کا باعث ہے۔ اس کا استعمال کسی طور پر بھی دائرۂ اسراف میں نہیں آتا۔ شہد اگرچہ حلال ہے لیکن اس کا استعمال لذات دنیا کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے تو آپ کو پیاس لگی تھی، اس لیے آپ نے دودھ کا انتخاب کیا کہ اس سے پیاس بجھ سکتی تھی جبکہ شراب اور شہد سے یہ کام پورا نہ ہو سکتا تھا۔ (فتح الباري: 93/10)واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ ایک حدیث میں دو پیالے پیش کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5576) لیکن ان میں کوئی منافات نہیں کیونکہ دو پیالے مقام ایلیاء میں پیش کیے گئے تھے جبکہ آپ اس وقت بیت المقدس میں تھے اور تین پیالے سدرۃ المنتہیٰ پر پیش کیے گئے تھے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5398.01
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5610
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5610
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5610
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو اس سے نشہ آ جاتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے کہ تمام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال اور جائز ہے۔ مذکورہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ نے بطور احسان ذکر کی ہے اور حرام چیز کا احسان کے طور پر ذکر نہیں کیا جاتا۔ اس سے پہلے ایسے مشروبات کا بیان تھا جو شرعاً حرام تھے۔ اب ایسے مشروبات ذکر کیے جائیں گے جو شرعاً جائز اور حلال ہیں۔ ان میں دودھ سرفہرست ہے۔
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ نحل میں فرمایا کہاللہ پاک لید اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے جو پینے والوں کو خوب رچتا پچتا ہے ۔تشریح :قال ابن التین الحال التفنن فی ھذہ الترجمۃ یرد قول من زعم ان اللبن فرد ذالک بالنصوص ( ماجہ ) یعنی ابن تین کہا کہ حضرت امام بخاری نے اس باب میں ان لوگوں کے خیال کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ دودھ اگر کثرت سے پیا جائے تو نشہ لے آتا ہے۔ ( فتح الباری ) وھذہ الایۃ صریحۃ فی احلال شراب لبن الانعام بجمیع افرادھم موقع الامتنان بہ یعم جمیع البان الانعام فی حال حیاتھا ( فتح ) یعنی یہ آیت صاف دلیل ہے اس امر پر کہ جملہ انعام حلال جانوروں کا دودھ پینا حلال ہے اور بحالت زندگی تمام انعام چوپائے حلال جانور اس میں داخل ہیں۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے جب سدرۃ المنتہیٰ کی طرف اٹھایا گیا تو میں نے وہاں چار نہریں دیکھیں: ان میں سے دو ظاہری تھیں اور دو باطنی۔ ظاہری نہریں تو نیل اور فرات ہیں اور باطنی نہیریں جنت میں تھیں۔ پھر مجھے تین پیالے پیش کیے گئے۔ ایک پیالے میں دودھ اور دوسرے میں شہد تھا جبکہ تیسرے پیالے میں شراب تھی میں نے وہ پیالہ لیا جس میں دودھ تھا اور اسے میں نے نوش جاں کیا اس لیے انتخاب پر مجھے کہا گیا: آپ نے اور آپ کی امت نے اصل فطرت کو پالیا ہے۔ ہشام سعید اور ہمام نے حضرت قتادہ سے انہوں نے حضرت انس ؓ سے انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے یہ حدیث بیان کی ہے، اس میں نہروں کا ذکر تو اسی طرح ہے لیکن تین پیالوں کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان تمام احادیث میں کسی نہ کسی حوالے سے دودھ کا ذکر ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ احادیث اس موقف کی تردید کے لیے پیش کی ہیں کہ زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے، لہذا اسے زیادہ نہیں پینا چاہیے، لیکن اس موقف کی کوئی بنیاد نہیں ہے کیونکہ دودھ کا پینا اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ثابت ہے۔ اگر کسی کو زیادہ دودھ پینے سے نشہ آ جاتا ہے تو اسے اپنے مزاج کی اصلاح کرنی چاہیے، اس میں دودھ کا کوئی قصور نہیں، یا پھر دودھ کو کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر نقصان دہ بنایا جاتا ہے، چنانچہ ابن سیرین بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے شراب کے متعلق سوال کیا، یعنی فلاں علاقے والے فلاں فلاں چیز سے شراب کشید کرتے ہیں۔ اس نے پانچ قسم کی مرکب شرابوں کا ذکر کیا۔ ان میں سے مجھے وہی شراب یاد ہے جو شہد، جو اور دودھ سے تیار کی جاتی تھی۔ ابن سیرین کہتے ہیں کہ میں اس وقت سے بہت پریشان تھا کہ میں دودھ کے متعلق دوسروں کو بتاؤں حتی کہ مجھے دودھ سے تیار کردہ ایسی شراب کا علم ہوا جس کے استعمال سے انسان فورا بے ہوش ہو جاتا ہے۔ (فتح الباري: 89/10) (2) امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ آخری حدیث میں ہے کہ معراج کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے جن میں ایک دودھ کا، دوسرا شہد کا اور تیسرا شراب کا تھا۔ شراب کو پسند نہ کرنے کی وجہ حدیث میں بیان ہوئی ہے لیکن شہد کو آپ نے کیوں پسند نہ کیا، حالانکہ دیگر احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ کو شہد اور میٹھی چیز بہت مرغوب تھی، شاید اس میں یہ راز ہو کہ دودھ زیادہ منفعت بخش ہوتا ہے۔ اس سے ہڈیاں مضبوط ہوتی ہیں اور گوشت پیدا ہوتا ہے۔ اس کا مجرد استعمال قوت کا باعث ہے۔ اس کا استعمال کسی طور پر بھی دائرۂ اسراف میں نہیں آتا۔ شہد اگرچہ حلال ہے لیکن اس کا استعمال لذات دنیا کا باعث بن سکتا ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اس میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین پیالے پیش کیے گئے تو آپ کو پیاس لگی تھی، اس لیے آپ نے دودھ کا انتخاب کیا کہ اس سے پیاس بجھ سکتی تھی جبکہ شراب اور شہد سے یہ کام پورا نہ ہو سکتا تھا۔ (فتح الباري: 93/10)واللہ أعلم۔ (3) واضح رہے کہ ایک حدیث میں دو پیالے پیش کرنے کا ذکر ہے۔ (صحیح البخاري، الأشربة، حدیث: 5576) لیکن ان میں کوئی منافات نہیں کیونکہ دو پیالے مقام ایلیاء میں پیش کیے گئے تھے جبکہ آپ اس وقت بیت المقدس میں تھے اور تین پیالے سدرۃ المنتہیٰ پر پیش کیے گئے تھے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
ارشاد باری تعالٰی ہے: ”ان چوپایوں کے پیٹوں میں) جو گوبر اور خون ہے اس سے (ہم تمہیں خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بہت خوشگوار ہے“
حدیث ترجمہ:
اور ابراہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے شعبہ نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا، ان سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا تو وہاں میں نے چار نہریں دیکھیں۔ دو ظاہری نہریں اور دو باطنی۔ ظاہری نہریں تو نیل اور فرات ہیں اور باطنی نہریں جنت کی دو نہریں ہیں۔ پھر میرے پاس تین پیالے لائے گئے ایک پیالے میں دودھ تھا، دوسرے میں شہد تھا اور تیسرے میں شراب تھی۔ میں نے وہ پیالہ لیا جس میں دودھ تھا اور پیا۔ اس پر مجھ سے کہا گیا کہ تم نے اور تمہاری امت نے اصل فطرت کو پا لیا۔ ہشام اور سعید اور ہمام نے قتادہ سے، انہوں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے، انہوں نے مالک بن صعصعہ ؓ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔ اس میں ندیوں کا ذکر توایسا ہی ہے لیکن تین پیالوں کا ذکر نہیں ہے۔
حدیث حاشیہ:
ان روایتوں کو امام بخاری نے کتاب بدءالخلق میں وصل کیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دودھ لایا گیا اور اس کے پینے کے بعد آپ کو عالم ملکوت السماوات کی سیر کرائی گئی، سدرۃ المنتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہی کہ فرشتوں کا علم وہاں جا کر ختم ہو جاتا ہے اور وہ آگے جا بھی نہیں سکتے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
The Prophet (ﷺ) added: I was raised to the Lote Tree and saw four rivers, two of which were coming out and two going in. Those which were coming out were the Nile and the Euphrates, and those which were going in were two rivers in paradise. Then I was given three bowls, one containing milk, and another containing honey, and a third containing wine. I took the bowl containing milk and drank it. It was said to me, "You and your followers will be on the right path (of Islam)."