باب: دودھ میں پانی ملانا ( بشرطیکہ دھوکے سے بیچا نہ جائے ) جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: The drinking of milk with water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5613.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اںصاری کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کےساتھ آپ کے ایک رفیق (حضرت ابوبکر صدیق ؓ) بھی تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا باسی پانی ہے تو (ہمیں پلاؤ) ہم اس سے منہ لگا کر پی لیتے ہیں۔“ حضرت جابر ؓ نے کہا: وہ انصاری اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس رات کا پانی موجود ہے آپ میری جھونپڑی میں تشریف لے جائیں، چنانچہ وہ ان دونوں کو وہاں لے گیا پھر اس پر دودھ دوہا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے نوش فرمایا: پھر آپ کے رفیق نے اس سے پیا۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ انصاری کے پاس جو پانی تھا وہ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ اس نے اس پانی پر بکری کا دودھ دوہا تاکہ اس کی ٹھنڈک گرم دودھ سے معتدل ہو جائے، پھر خالص پانی پیش کرنے کے بجائے ضیافت کے طور پر دودھ کی ملاوٹ کی۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گرم گرم دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس میں ٹھنڈا پانی ڈالا تھا تاکہ دودھ کی گرمی اس پانی سے معتدل ہو جائے۔ (صحیح البخاري، في اللقطة، حدیث: 2439) (2) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی فاضل بزرگ اپنے کسی عقیدت مند کے ہاں قصد کر کے جا سکتا ہے، ایسا کرنا چاہیے تاکہ عقیدت مندوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5401
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5613
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5613
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5613
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
پینے کے لیے دودھ میں پانی ملایا جا سکتا ہے لیکن فروخت کرنے کے لیے دودھ میں پانی ملانا دھوکا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک اںصاری کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کےساتھ آپ کے ایک رفیق (حضرت ابوبکر صدیق ؓ) بھی تھے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا باسی پانی ہے تو (ہمیں پلاؤ) ہم اس سے منہ لگا کر پی لیتے ہیں۔“ حضرت جابر ؓ نے کہا: وہ انصاری اپنے باغ میں پودوں کو پانی دے رہا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس رات کا پانی موجود ہے آپ میری جھونپڑی میں تشریف لے جائیں، چنانچہ وہ ان دونوں کو وہاں لے گیا پھر اس پر دودھ دوہا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اسے نوش فرمایا: پھر آپ کے رفیق نے اس سے پیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ انصاری کے پاس جو پانی تھا وہ برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ اس نے اس پانی پر بکری کا دودھ دوہا تاکہ اس کی ٹھنڈک گرم دودھ سے معتدل ہو جائے، پھر خالص پانی پیش کرنے کے بجائے ضیافت کے طور پر دودھ کی ملاوٹ کی۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گرم گرم دودھ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اس میں ٹھنڈا پانی ڈالا تھا تاکہ دودھ کی گرمی اس پانی سے معتدل ہو جائے۔ (صحیح البخاري، في اللقطة، حدیث: 2439) (2) واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی فاضل بزرگ اپنے کسی عقیدت مند کے ہاں قصد کر کے جا سکتا ہے، ایسا کرنا چاہیے تاکہ عقیدت مندوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عامر نے، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن حارث نے اور ان سے جابر بن عبداللہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ انصار کے ایک صحابی کے یہاں تشریف لے گئے آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کے ایک رفیق (ابوبکر ؓ ) بھی تھے۔ ان سے آپ نے فرمایا کہ اگر تمہارے یہاں اسی رات کا باسی پانی کسی مشکیزے میں رکھا ہوا ہو (تو ہمیں پلاؤ) ورنہ منہ لگا کے پانی پی لیں گے۔ جابر ؓ نے بیان کیا کہ وہ صاحب (جن کے یہاں آپ تشریف لیے گئے تھے) اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے۔ بیان کیا کہ ان صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے پاس رات کا باسی پانی موجود ہے، آپ چھپر میں تشریف لے چلیں۔ بیان کیا کہ پھر وہ ان دونوں حضرات کو ساتھ لے کر گئے پھر انہوں نے ایک پیالہ میں پانی لیا اور اپنی ایک دودھ دینے والی بکری کا اس میں دودھ نکالا۔ بیان کیا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے اسے پیا، اس کے بعد آپ کے رفیق ابو بکر صدیق ؓ نے پیا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) and one of his companions entered upon an Ansari man and the Prophet (ﷺ) said to him, "If you have water kept overnight in a water skin, (give us), otherwise we will drink water by putting our mouth in it." The man was watering his garden then. He said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have water kept overnight; let us go to the shade." So he took them both there and poured water into a bowl and milked a domestic goat of his in it. Allah's Apostle (ﷺ) drank, and then the man who had come along with him, drank.