Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink water from a basin by putting mouth in it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5621.
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ قبیلہ انصار کے ایک صحابی کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے ایک رفیق (صدیق اکبر ؓ ) بھی تھے نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی نے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا، پھر عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ قربان ہوں یہ بڑی گرمى کا وقت ہے اور وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ نبی ﷺ نے اسے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے تو پلاؤ ورنہ ہم (اس حوض سے) منہ لگا کر پی لیں گے۔“ اور وہ اس وقت بھی باغ کو پانی دے رہا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مشکیزے میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے۔ پھر وہ اپنی جھونپڑی کی طرف گیا، پیالے میں پانی لایا اور اس پر اپنی گھریلو بکری کا دودھ دوہا۔ نبی ﷺ نے اسے نوش فرمایا: پھر وہ دوبارہ لایا تو جو صاحب آپ کے ساتھ تھے انہوں نے پیا۔
تشریح:
(1) كرع کے متعدد معانی کتب لغت میں منقول ہیں۔ كراع الارض اس گڑھے کو کہتے ہیں جہاں بارش وغیرہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والی پانی کو بھی کراع کہا جاتا ہے۔ كرع القوم کے معنی ہیں کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا جو انہوں نے استعمال کیا۔ اس حدیث میں كرعنا کے یہی معنی مراد ہو سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے تو لے آؤ، ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔‘‘ کرع کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کیے بغیر منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (2) حدیث میں اگرچہ حوض کا ذکر نہیں ہے، تاہم حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق دو دفعہ کہا ہے کہ وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ عام دستور کے مطابق پہلے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور اسے جمع کیا جاتا ہے، پھر اسے درختوں میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو گا پہلے وہ کنویں سے پانی نکالتا ہو گا، پھر جمع کیا ہوا پانی آگے درختوں میں لگاتا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5409
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5621
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5621
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5621
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ قبیلہ انصار کے ایک صحابی کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ کے ساتھ آپ کے ایک رفیق (صدیق اکبر ؓ ) بھی تھے نبی ﷺ اور آپ کے ساتھی نے اسے سلام کیا۔ اس نے سلام کا جواب دیا، پھر عرض کی: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ قربان ہوں یہ بڑی گرمى کا وقت ہے اور وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ نبی ﷺ نے اسے فرمایا: ”اگر تمہارے پاس مشکیزے میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے تو پلاؤ ورنہ ہم (اس حوض سے) منہ لگا کر پی لیں گے۔“ اور وہ اس وقت بھی باغ کو پانی دے رہا تھا اس نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مشکیزے میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے۔ پھر وہ اپنی جھونپڑی کی طرف گیا، پیالے میں پانی لایا اور اس پر اپنی گھریلو بکری کا دودھ دوہا۔ نبی ﷺ نے اسے نوش فرمایا: پھر وہ دوبارہ لایا تو جو صاحب آپ کے ساتھ تھے انہوں نے پیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) كرع کے متعدد معانی کتب لغت میں منقول ہیں۔ كراع الارض اس گڑھے کو کہتے ہیں جہاں بارش وغیرہ کا پانی جمع ہو جاتا ہے۔ پہاڑ یا پتھریلے میدانوں سے نکلنے والی پانی کو بھی کراع کہا جاتا ہے۔ كرع القوم کے معنی ہیں کہ لوگوں کو بارش وغیرہ کا جمع شدہ پانی مل گیا جو انہوں نے استعمال کیا۔ اس حدیث میں كرعنا کے یہی معنی مراد ہو سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ’’اگر تمہارے پاس ایسا پانی ہو جو رات بھر سے مشکیزے میں ہے تو لے آؤ، ورنہ ہم حوض سے جمع شدہ پانی پی لیتے ہیں۔‘‘ کرع کے ایک معنی برتن یا ہاتھ استعمال کیے بغیر منہ سے پانی پینا بھی ہیں۔ یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں۔ اس مفہوم کے اعتبار سے بوقت ضرورت اس طرح پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ (2) حدیث میں اگرچہ حوض کا ذکر نہیں ہے، تاہم حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق دو دفعہ کہا ہے کہ وہ اپنے باغ کو پانی دے رہا تھا۔ عام دستور کے مطابق پہلے کنویں سے پانی نکالا جاتا ہے اور اسے جمع کیا جاتا ہے، پھر اسے درختوں میں لگایا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو گا پہلے وہ کنویں سے پانی نکالتا ہو گا، پھر جمع کیا ہوا پانی آگے درختوں میں لگاتا ہو گا۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے سعید بن حارث نے اور ان سے حضرت جابر بن عبداللہ انصاری ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ قبیلہ انصار کے ایک صحابی کے یہاں تشریف لے گئے۔ آنحضرت ﷺ کے ساتھ آپ کے ایک رفیق بھی تھے۔ آنحضرت ﷺ اور آپ کے رفیق نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے سلام کا جواب دی۔ پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ ﷺ پر نثار ہوں یہ بڑی گرمی کا وقت ہے وہ اپنے باغ میں پانی دے رہے تھے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تمہارے پاس مشک میں رات کا رکھا ہوا پانی ہے (تو وہ پلا دو) ورنہ ہم منہ لگا کر پی لیں گے (یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے) وہ صاحب اس وقت بھی باغ میں پانی دے رہے تھے۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس مشک میں رات کا رکھا ہوا باسی پانی ہے پھر وہ چھپر میں گئے اور ایک پیالے میں باسی پانی لیا پھر اپنی ایک دودھ دینے والی بکری کا دودھ اس میں نکالا۔ آنحضرت ﷺ نے اسے پیا پھر وہ دوبارہ لائے اور اس مرتبہ آنحضرت ﷺ کے رفیق حضرت ابوبکر ؓ نے پیا۔
حدیث حاشیہ:
حدیث میں حوض کا ذکر نہیں ہے مگر دستور یہ ہے کہ باغ میں جب پانی کنویں سے نکالا جائے تو ایک حوض میں جمع ہو کر آگے درختوں میں جاتا ہے یہاں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ وہ باغ والا اپنے درختوں کو پانی دے رہا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jabir bin ' Abdullah (RA) : The Prophet (ﷺ) and one of his companions entered upon an Ansari man. The Prophet (ﷺ) and his companion greeted (the man) and he replied, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Let my father and mother be sacrificed for you! It is hot," while he was watering his garden. The Prophet (ﷺ) asked him, "If you have water kept overnight in a water skin, (give us), or else we will drink by putting our mouths in the basin." The man was watering the garden The man said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I have water kept overnight in a water-skin. He went to the shade and poured some water into a bowl and milked some milk from a domestic goat in it. The Prophet (ﷺ) drank and then gave the bowl to the man who had come along with him to drink.