Sahi-Bukhari:
Drinks
(Chapter: To drink water from the mouth of a water-skin)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5629.
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مشکیزے کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا تھا۔
تشریح:
(1) مشکیزے کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینا بہت خطرناک ہے۔ ممکن ہے منہ کھولنے سے اس قدر پانی پیٹ میں زیادہ چلا جائے کہ جان کے لالے پڑ جائیں۔ صراحی وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کے ہاں ایک مشک لٹک رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس سے منہ لگا کر پانی پیا۔ انہوں نے دہن مبارک کی برکت کے خیال سے مشک کا منہ کاٹ کر رکھ لیا۔ (سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3423) (2) اس حدیث سے مشکیزے کے منہ سے پینے کا جواز معلوم ہوتا ہے جبکہ سابقہ باب کی حدیثوں سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے؟ ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ مجبوری کے وقت مشک کے منہ سے پانی پینا جائز ہے، مثلاً: مشکیزہ لٹکا ہوا ہو، اسے اتارا نہ جا سکتا ہو یا برتن میسر نہ ہو اور ہتھیلی سے پینا بھی ناممکن ہو تو اس صورت میں مشکیزے سے براہ راست پیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی عذر نہ ہو تو ممانعت کی حدیث پر عمل کیا جائے۔ (فتح الباري: 114/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5417
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5629
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5629
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5629
تمہید کتاب
الاشربه، شراب کی جمع ہے۔ ہر بہنے والی چیز جسے نوش کیا جائے وہ شراب کہلاتی ہے۔ ہمارے ہاں اسے مشروب کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے بے شمار مشروبات پیدا کیے ہیں، پھر اس نے کمال رحمت سے کچھ ایسی پینے کی چیزیں حرام کی ہیں جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس کی عقل کو خراب کرتی ہیں، لیکن ممنوع مشروبات بہت کم ہیں۔ ان کے علاوہ ہر پینے والی چیز حلال اور جائز ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اللہ کے رزق میں سے کھاؤ اور پیو۔" (البقرۃ: 2/60) حلال مشروبات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان انہیں نوش کر کے اللہ کی اطاعت گزاری میں خود کو مصروف رکھے۔ مشروبات کے متعلق اسلامی تعلیمات کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک وہ جن میں مشروبات کی حلت و حرمت بیان کی گئی ہے، دوسرے وہ جن میں پینے کے وہ آداب بیان کیے گئے ہیں جن کا تعلق سلیقہ و وقار سے ہے یا ان میں کوئی طبی مصلحت کارفرما ہے یا وہ اللہ کے ذکر و شکر کی قبیل سے ہیں اور ان کے ذریعے سے پینے کے عمل کو اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ بنا دیا جاتا ہے اگرچہ بظاہر ایک مادی عمل اور نفس کا تقاضا ہوتا ہے۔ مشروبات کی حلت و حرمت کے متعلق بنیادی بات وہ ہے جسے قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: "وہ (نبی) اچھی اور پاکیزہ چیزوں کو اللہ کے بندوں کے لیے حلال اور خراب اور گندی چیزوں کو ان کے لیے حرام قرار دیتا ہے۔" (الاعراف: 7/157) قرآن و حدیث میں مشروبات کی حلت و حرمت کے جو احکام ہیں وہ اسی آیت کے اجمال کی تفصیل ہیں۔ جن مشروبات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے ان میں کسی نہ کسی پہلو سے ظاہری یا باطنی خباثت ضرور ہے۔ قرآن مجید میں مشروبات میں سے صراحت کے ساتھ شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ خبیث ہی نہیں بلکہ ام الخبائث ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت جو احادیث پیش کی ہیں ہم انہیں چند حصوں میں تقسیم کرتے ہیں: ٭ وہ احادیث جن میں حرام مشروبات کی تفصیل ہے۔ آپ کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی مشروب کو استعمال سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ حرام تو نہیں کیونکہ ایسا مشروب جو نشہ آور ہو یا عقل کے لیے ضرر رساں یا انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہو اسے شریعت نے حرام کیا ہے۔ ٭ ایسی احادیث بیان کی ہیں جن میں وضاحت ہے کہ شراب صرف وہ حرام نہیں جو انگوروں سے بنائی گئی ہو بلکہ شراب کی حرمت کا مدار اس کے نشہ آور ہونے پر ہے، خواہ کسی چیز سے تیار کی گئی ہو۔ ٭ جن برتنوں میں شراب کشید کی جاتی تھی، ان کے استعمال کے متعلق احادیث بیان کی گئی ہیں کہ ان کا استعمال پہلے حرام تھا، جب شراب کی نفرت دلوں میں اچھی طرح بیٹھ گئی تو ایسے برتنوں کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ ٭ ان احادیث کو ذکر کیا ہے جن میں مختلف مشروبات کے استعمال کی اجازت مروی ہے، خواہ وہ پھلوں کا جوس ہو یا کھجوروں کا نبیذ وغیرہ بشرطیکہ ان میں نشہ نہ ہو۔ ٭ پینے کے آداب بیان کیے ہیں کہ مشکیزے کے منہ سے نہ پیا جائے اور نہ سونے چاندی کے برتنوں کو کھانے پینے کے لیے استعمال ہی کیا جائے، اس کے علاوہ پینے کے دوران میں برتن میں سانس نہ لیا جائے۔ ٭ ان کے علاوہ کھڑے ہو کر پینے کی حیثیت، جس برتن میں کوئی مشروب ہو اسے ڈھانپنا، پینے پلانے کے سلسلے میں چھوٹوں کا بڑوں کی خدمت کرنا وغیرہ آداب پر مشتمل احادیث بیان کی گئی ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے مشروبات کے احکام و مسائل بیان کرنے کے لیے اکانوے (91) احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں انیس (19) معلق اور بہتر (72) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ستر (70) کے قریب مکرر اور اکیس (21) خالص ہیں۔ امام مسلم رحمہ اللہ نے آٹھ (8) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ احادیث کو اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کے چودہ (14) آثار بھی بیان کیے ہیں جن سے امام بخاری رحمہ اللہ کی وسعت نظر کا پتا چلتا ہے۔ آپ نے ان احادیث و آثار پر اکتیس (31) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کر کے بے شمار احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ ہم ان شاءاللہ عنوانات اور بیان کردہ احادیث کی دیگر احادیث کی روشنی میں وضاحت کریں گے۔ قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کو سامنے رکھتے ہوئے ان احادیث کا مطالعہ کریں، امید ہے کہ علمی بصیرت میں اضافے کا باعث ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے مطابق عمل کی توفیق دے۔
تمہید باب
پہلے باب میں مشکیزے کے منہ کو اوپر کی طرف موڑ کر اندر کی جانب سے پانی پینے کی ممانعت تھی۔ اس عنوان سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ اگر کوئی مشکیزے کا منہ اوپر کی طرف نہ موڑے بلکہ اس کا منہ کھول کر براہ راست اس سے پانی پینے لگے تو بھی ممانعت ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے مشکیزے کے منہ سے پانی پینے سے منع فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) مشکیزے کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینا بہت خطرناک ہے۔ ممکن ہے منہ کھولنے سے اس قدر پانی پیٹ میں زیادہ چلا جائے کہ جان کے لالے پڑ جائیں۔ صراحی وغیرہ کا بھی یہی حکم ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبشہ انصاریہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کے ہاں ایک مشک لٹک رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کھڑے اس سے منہ لگا کر پانی پیا۔ انہوں نے دہن مبارک کی برکت کے خیال سے مشک کا منہ کاٹ کر رکھ لیا۔ (سنن ابن ماجة، الأشربة، حدیث: 3423) (2) اس حدیث سے مشکیزے کے منہ سے پینے کا جواز معلوم ہوتا ہے جبکہ سابقہ باب کی حدیثوں سے اس کی ممانعت ثابت ہوتی ہے؟ ان میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ مجبوری کے وقت مشک کے منہ سے پانی پینا جائز ہے، مثلاً: مشکیزہ لٹکا ہوا ہو، اسے اتارا نہ جا سکتا ہو یا برتن میسر نہ ہو اور ہتھیلی سے پینا بھی ناممکن ہو تو اس صورت میں مشکیزے سے براہ راست پیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی عذر نہ ہو تو ممانعت کی حدیث پر عمل کیا جائے۔ (فتح الباري: 114/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے حضرت ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے مشک کے منہ سے پانی پینے کو منع فرمایا تھا۔
حدیث حاشیہ:
مشک کے منہ سے منہ لگا کر پانی پینا خطرناک کام ہے ممکن ہے کہ مشک سے اتنا پانی بلا قصد پیٹ میں چلا جائے کہ جان کے لالے پڑ جائیں لہٰذا چرا کار کند عاقل کہ بعد آید پشیمانی۔ صراحی کا بھی یہی حکم ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn Abbas (RA) : The Prophet (ﷺ) forbade the drinking of water direct from the mouth of a water-skin.