باب: عشاء اور عتمہ کا بیان اور جو یہ دونوں نام لینے میں کوئی ہرج نہیں خیال کرتے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: The mention of 'Isha' and 'Atama and whoever took the two names as one and the same)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی ﷺ کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس ؓ اور عائشہ ؓ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے حضرت عائشہ ؓ نے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے “ عتمہ ” کو دیر سے پڑھا۔ حضرت جابر ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ “ عشاء ” پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ عشاء میں دیر کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاء پڑھی۔تشریح :امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیاہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاءسے ہی موسوم کیاجائے۔ اس پر بھی اگرکسی نے لفظ عتمہ اس کے لیے استعمال کرلیاتو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ کرام ؓ کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کررکھیتھی۔ جو بھی حاضر درباررسالت ہوتا، دیگر صحابہ ؓ ان سے حالات معلوم کرلیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انھوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کرلی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ اعتم استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نمازکو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ ﷺ مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر ؓ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔
564.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی اور یہ وہی نماز ہے جسے لوگ "عتمة" کہتے تھے، پھر نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تمہیں اس رات کے متعلق خبر دوں، آج جو لوگ روئے زمین پر ہیں، آج سے ایک صدی پوری ہونے تک ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عشاء کہ لیے لفظ"عتمة" بولا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جبکہ مغرب پر لفظ "عشاء" درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔ عشاء کوعتمہ کہنے کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ تو عتمہ کہنے والوں پرناراض ہوتے تھے، جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جواز منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس اطلاق کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ (فتح الباري :60/2) (2) رسول اللہ ﷺ سے نماز عشاء کوعتمہ کہنے کی نہی وارد ہے جبکہ بعض اوقات اس لفظ کو نماز عشاء کےلیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس کے درمیان تطبیق کی دوصورتیں ہیں:٭نہی تحریم کےلیے نہیں بلکہ تنزیہ کےلیے ہے اور لفظ عتمہ کو عشاء کےلیے استعمال کرنا جائز ہے۔٭لفظ عتمہ ان لوگوں کےسامنے بولا گیا جو عشاء کے نام کو نہیں جانتے تھے اور ان کے ہاں یہ زیادہ مشہور نہ تھا، یعنی عشاء کےلیے عتمہ کا استعمال بطور نام نہیں بلکہ تعارف کے لیے استعمال کیا گیا۔ (شرح النووي: 208/4)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
558
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
564
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
564
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
564
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
پہلے عنوان کے تحت شریعت کے اصطلاحی نام میں تبدیلی کا بیان ےتھا کہ مغرب پر عشاء کا اطلاق مکروہ ہے جبکہ اس باب میں توسع کا ذکر کیا ہے،یعنی عشاء کو عتمہ کہنے کی گنجائش ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب پر کبھی عشاء کا اطلاق نہیں کیا جبکہ عشاء کےلیے بعض مواقع پر عتمہ کا لفظ استعمال کیا ہے،نیز مغرب کو عشاء کہنے سے التباس کا اندیشہ تھا جبکہ عشاء کو عتمہ کہنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں کیونکہ عشاء اور عتمہ ایک ہی چیز کے دونام ہیں،تاہم بہتر ہے کہ عشاء کو عشاء ہی کہا جائے کیونکہ یہی اس کا شرعی اور اصطلاحی نام ہے۔اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے چند ایک روایات کا حوالہ دیا جنہیں دوسرے مقامات پر صحیح سند کے ساتھ نقل فرمایا ہے۔ان کی تفصیل حسب ذیل ہے:ان تعلیقات سے امام بخاری یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نماز عشاء کے لیے کبھی عشاء اور کبھی عتمہ ہر دوناموں کا اطلاق ہوا ہے،اس لیے ایسے ناموں کے اطلاق کی گنجائش ہے جن سے کسی بڑی غلط فہمی کا اندیشہ نہیں ہے جبکہ مغرب پر عشاء کے اطلاق کی ممانعت تھی کیونکہ اس میں دوباتیں تھیں:٭ اسلامی اصطلاح کی حفاظت٭ احکام شرعیہ میں التباس کا اندیشہ۔نماز عشاء پر عتمہ کے اطلاق میں پہلا سبب تو موجود ہے لیکن دوسرے سبب،یعنی احکام میں التباس کا کوئی اندیشہ نہیں کیونکہ دونوں کا مصداق ایک ہے۔اس گنجائش کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کے اسدلال کی دوبنیادیں ہیں۔٭احادیث میں نماز عشاء کے لیے عتمہ صراحت کے ساتھ استعمال ہوا ہے۔٭بعض احادیث میں نماز عشاء کےلیے لفظ عتمہ بطور نام نہیں بلکہ فعل کے طور پر اس کا اطلاق ہوا ہے،تاہم بہتر ہے کہ اس نماز کےلیےعشاء کا لفظ استعمال کیا جائے اور اسے عتمہ کہنے سے گریز کیا جائے۔اللہ کی کتاب میں اس کا نام عشاء ہی استعمال ہوا ہے،البتہ یہ لوگ اپنی اونٹنیوں کو دیر سے دوہنے کی وجہ سے اس نماز کو اندھیرے میں پڑھتے ہیں اور اسے عتمہ کہتے ہیں۔(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1456(644).)دراصل دیہاتی لوگ غرباءاور مساکین کو اپنی خیرات سے محروم رکھنے کےلیے اپنی اونٹنیوں کو رات اندھیرے میں دوہتے تھے،یعنی نماز عشاء کانام عتمہ رکھنے سےان کی دنیوی اغراض وابستہ تھیں،اس لیے شریعت نے ایک خاص دینی کام کےلیے لفظ عتمہ کے استعمال کو ناپسند فرمایا ہے اور اسے اس انداز سے استعمال کرنا ممنوع ٹھہرایا ہےکہ اصل نام متروک ہوجائے،البتہ کبھی کبھار اس کے استعمال پرکوئی قدغن نہیں جیسا کہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم" نماز عتمہ" کوتاخیر سے پڑھتے تھے۔(صحیح مسلم، المساجد،حدیث:1454(643).)اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جوتعلیقات پیش کی ہیں انھیں دیگر مقامات میں متصل سند سے بیان کیا ہے،ترتیب کے مطابق تفصیل حسب ذیل ہے:٭الاذان،حديث:657. ٭الاذان،حديث:615. ٭المواقيت،حديث:567.٭المواقيت،حديث:571.٭الموقيت،حديث:569.٭الاذان،حديث:864.٭المواقيت،حديث:565.٭المواقيت،حديث:547.٭الموقيت،حديث:572.٭الحج،حديث:1673.٭الحج،حديث:1674.٭لمواقيت،حديث:543.
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کر کے فرمایا، کہ منافقین پر عشاء اور فجر تمام نمازوں سے زیادہ بھاری ہیں، اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ کاش! وہ سمجھ سکتے کہ عتمہ ( عشاء ) اور فجر کی نمازوں میں کتنا ثواب ہے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ عشاء کہنا ہی بہتر ہے۔ کیونکہ ارشاد باری ہے ومن بعد صلوٰۃ العشاء ( میں قرآن نے اس کا نام عشاء رکھ دیا ہے ) ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ ہم نے عشاء کی نماز نبی ﷺ کی مسجد میں پڑھنے کے لیے باری مقرر کر لی تھی۔ ایک مرتبہ آپ نے اسے رات گئے پڑھا۔ اور ابن عباس ؓ اور عائشہ ؓ نے بتلایا کہ نبی کریم ﷺ نے نماز عشاء دیر سے پڑھی۔ بعض نے حضرت عائشہ ؓ نے نقل کیا کہ نبی کریم ﷺ نے “ عتمہ ” کو دیر سے پڑھا۔ حضرت جابر ؓ نے کہا کہ نبی ﷺ “ عشاء ” پڑھتے تھے۔ ابوبرزہ اسلمی ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ عشاء میں دیر کرتے تھے۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ آخری عشاء کو دیر میں پڑھتے تھے۔ ابن عمر، ابوایوب اور ابن عباس ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے مغرب اور عشاء پڑھی۔تشریح :امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ نے ان جملہ احادیث اور آثار کو یہاں اس غرض سے نقل کیاہے کہ بہتر ہے عشاءکو لفظ عشاءسے ہی موسوم کیاجائے۔ اس پر بھی اگرکسی نے لفظ عتمہ اس کے لیے استعمال کرلیاتو یہ بھی درجہ جواز میں ہے۔ صحابہ کرام ؓ کا عام معمول تھا کہ وہ نبی کریم ﷺ کی ہدایات سے آگاہ رہنا اپنے لیے ضروری خیال کرتے تھے، جو حضرات مسجد نبوی سے دور دراز سکونت رکھتے تھے، انھوں نے آپس میں باری مقرر کررکھیتھی۔ جو بھی حاضر درباررسالت ہوتا، دیگر صحابہ ؓ ان سے حالات معلوم کرلیا کرتے تھے۔ ابوموسیٰ اشعری ؓ بھی ان ہی میں سے تھے۔ یہ ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد مدینہ میں کافی فاصلہ پر سکونت پذیر ہوئے اور انھوں نے اپنے پڑوسیوں سے مل کر دربار رسالت میں حاضری کی باری مقرر کرلی تھی۔ آپ نے ایک رات نماز عشاء دیر سے پڑھے جانے کا ذکر کیا اور اس کے لیے لفظ اعتم استعمال کیا جس کا مطلب یہ کہ آپ نے دیر سے اس نمازکو ادا فرمایا۔ بعض کتابوں میں تاخیر کی وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ آپ ﷺ مسلمانوں کے بعض معلاملات کے بارے میں حضرت صدیق اکبر ؓ سے مشورہ فرما رہے تھے، اسی لیے تاخیر ہو گئی۔
حدیث ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شب رسول اللہ ﷺ نے ہمیں نماز عشاء پڑھائی اور یہ وہی نماز ہے جسے لوگ "عتمة" کہتے تھے، پھر نماز سے فراغت کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تمہیں اس رات کے متعلق خبر دوں، آج جو لوگ روئے زمین پر ہیں، آج سے ایک صدی پوری ہونے تک ان میں سے کوئی باقی نہیں رہے گا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث سے امام بخاری ؒ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ عشاء کہ لیے لفظ"عتمة" بولا جا سکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہے، جبکہ مغرب پر لفظ "عشاء" درست نہیں، کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے ایسا ثابت نہیں۔ عشاء کوعتمہ کہنے کے متعلق متقدمین میں اختلاف ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ تو عتمہ کہنے والوں پرناراض ہوتے تھے، جبکہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ سے جواز منقول ہے۔ بعض حضرات نے اس اطلاق کو خلاف اولیٰ قرار دیا ہے اور یہی راجح ہے۔ (فتح الباري :60/2) (2) رسول اللہ ﷺ سے نماز عشاء کوعتمہ کہنے کی نہی وارد ہے جبکہ بعض اوقات اس لفظ کو نماز عشاء کےلیے استعمال بھی کیا گیا ہے۔ اس کے درمیان تطبیق کی دوصورتیں ہیں:٭نہی تحریم کےلیے نہیں بلکہ تنزیہ کےلیے ہے اور لفظ عتمہ کو عشاء کےلیے استعمال کرنا جائز ہے۔٭لفظ عتمہ ان لوگوں کےسامنے بولا گیا جو عشاء کے نام کو نہیں جانتے تھے اور ان کے ہاں یہ زیادہ مشہور نہ تھا، یعنی عشاء کےلیے عتمہ کا استعمال بطور نام نہیں بلکہ تعارف کے لیے استعمال کیا گیا۔ (شرح النووي: 208/4)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان عبداللہ بن عثمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں یونس بن یزید نے خبر دی زہری سے کہ سالم نے یہ کہا کہ مجھے (میرے باپ) عبداللہ بن عمر ؓ نے خبر دی کہ ایک رات نبی ﷺ نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔ یہی جسے لوگ ''عتمة'' کہتے ہیں۔ پھر ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم اس رات کو یاد رکھنا۔ آج جو لوگ زندہ ہیں ایک سو سال کے گزرنے تک روئے زمین پر ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی سوبرس میں جتنے لوگ آج زندہ ہیں سب مرجائیں گے۔ اور نئی نسل ظہور میں آتی رہے گی۔ سب سے آخری صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ؓ ہیں۔ جن کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے حضرت خضرؑ کی وفات پر بھی دلیل پکڑی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abdullah (RA): "One night Allah's Apostle (ﷺ) led us in the 'Isha' prayer and that is the one called Al-'Atma by the people. After the completion of the prayer, he faced us and said, "Do you know the importance of this night? Nobody present on the surface of the earth to-night will be living after one hundred years from this night." (See Hadith No. 575).