باب: ریاح رک جانے سے جسے مرگی کا عارضہ ہو اس کی فضیلت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: The superiority of a person suffering from epilepsy)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5652.
حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: ضرور دکھائیں۔ انہوں نے کہا : اس سیاہ فارم عورت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر، اس کے عوض تجھے جنت ملے گی اور ”اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا کر دیتا ہوں کہ تجھے تندرستی دے۔“ اس نے کہا: میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
تشریح:
(1) اس عورت کا نام ام زفر تھا اور اسے مرگی کا دورہ شیاطین کی دراندازی کی وجہ سے پڑتا تھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ وہ کہنے لگی: مجھے شیطان خبیث سے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھے ننگا نہ کر دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔ آئندہ جب اسے شیطان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تو وہ غلافِ کعبہ کو پکڑ لیتی۔ (مسند البزار: 191/12، رقم: 5073) اس عورت نے علاج معالجہ چھوڑ دیا اور اپنی بیماری پر صبر کیا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہ طریقۂ علاج ادویات کے علاج سے زیادہ نفع بخش ہے۔ انسانی بدن، ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، بلکہ دعا تو مومن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے۔ بہرحال مصیبت پر صبر کرنا حصول جنت کا ذریعہ ہے اور رخصت اختیار کرنے کے بجائے سختی کو اختیار کرنا بہت بڑے مقام کا باعث ہے بشرطیکہ وہ جانتا ہو کہ مصیبت کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں وہ صبر کرے گا اور ہر حالت میں صبر سے کام لے گا۔ (2) اس حدیث میں اگرچہ شیطان کی دراندازی سے مرگی کا ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ مرگی کو اس پر قیاس کیا۔ دوسری مرگی ریاح اور گردش خون کے رک جانے سے ہوتی ہے اور اس دوران میں اعضائے رئیسہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتے ہیں، اس لیے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ردی بخارات دماغ میں چڑھ جاتے ہیں اور اسے متاثر کر دیتے ہیں۔ بہرحال مرگی کی دونوں قسموں کو اگر انسان خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اسے اللہ کے ہاں جنت ملنے کی بشارت ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5439
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5652
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5652
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5652
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
بے ہوشی دو طرح کی ہوتی ہے: ایک تو ریاح اور گردش خون کے رک جانے کی وجہ سے ہوتی ہے اور دوسری شیطان کی دراندازی سے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی بے ہوشی کو اگر صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی فضیلت ہے۔
حضرت عطاء بن ابی رباح سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا: کیا میں تجھے ایک جنتی عورت نہ دکھاؤں؟ میں نے کہا: ضرور دکھائیں۔ انہوں نے کہا : اس سیاہ فارم عورت نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے اس وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو چاہے تو صبر کر، اس کے عوض تجھے جنت ملے گی اور ”اگر تو چاہتی ہے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا کر دیتا ہوں کہ تجھے تندرستی دے۔“ اس نے کہا: میں صبر کروں گی۔ پھر اس نے عرض کی کہ مرگی کے دورے کے دوران میں میرا ستر کھل جاتا ہے آپ میرے لیے اللہ سے دعا کریں کہ میرا ستر نہ کھلا کرے تو آپ ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس عورت کا نام ام زفر تھا اور اسے مرگی کا دورہ شیاطین کی دراندازی کی وجہ سے پڑتا تھا، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ وہ کہنے لگی: مجھے شیطان خبیث سے ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ مجھے ننگا نہ کر دے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرما دی۔ آئندہ جب اسے شیطان کی طرف سے خطرہ محسوس ہوتا تو وہ غلافِ کعبہ کو پکڑ لیتی۔ (مسند البزار: 191/12، رقم: 5073) اس عورت نے علاج معالجہ چھوڑ دیا اور اپنی بیماری پر صبر کیا، نیز اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے سے بھی ہو سکتا ہے بلکہ یہ طریقۂ علاج ادویات کے علاج سے زیادہ نفع بخش ہے۔ انسانی بدن، ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے، بلکہ دعا تو مومن کے لیے بہت بڑا ہتھیار ہے۔ بہرحال مصیبت پر صبر کرنا حصول جنت کا ذریعہ ہے اور رخصت اختیار کرنے کے بجائے سختی کو اختیار کرنا بہت بڑے مقام کا باعث ہے بشرطیکہ وہ جانتا ہو کہ مصیبت کا دورانیہ طویل ہونے کی صورت میں وہ صبر کرے گا اور ہر حالت میں صبر سے کام لے گا۔ (2) اس حدیث میں اگرچہ شیطان کی دراندازی سے مرگی کا ذکر ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے علاوہ مرگی کو اس پر قیاس کیا۔ دوسری مرگی ریاح اور گردش خون کے رک جانے سے ہوتی ہے اور اس دوران میں اعضائے رئیسہ اپنی کارکردگی کھو بیٹھتے ہیں، اس لیے انسان بے ہوش ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ردی بخارات دماغ میں چڑھ جاتے ہیں اور اسے متاثر کر دیتے ہیں۔ بہرحال مرگی کی دونوں قسموں کو اگر انسان خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اسے اللہ کے ہاں جنت ملنے کی بشارت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عمران ابوبکر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا، تمہیں میں ایک جنتی عورت کو نہ دکھا دوں؟ میں نے عرض کیا کہ ضرور دکھائیں، کہا کہ ایک سیاہ عورت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں آئی اور کہا کہ مجھے مرگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کر دیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تو چاہے تو صبر کر تجھے جنت ملے گی اور اگر چاہے تو میں تیرے لیے اللہ سے اس مرض سے نجات کی دعا کر دوں۔ اس نے عرض کیا کہ میں صبر کروں گی پھر اس نے عرض کیا کہ مرگی کے وقت میرا ستر کھل جاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا کر دیں کہ ستر نہ کھلا کرے۔ آنحضرت ﷺ نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
حدیث حاشیہ:
بزار کی روایت میں یوں ہے کہ وہ عورت کہنے لگی میں شیطان خبیث سے ڈرتی ہوں کہیں مجھ کا ننگا نہ کرے۔ آپ نے فرمایا کہ تجھ کو یہ ڈر ہو تو کعبے کے پردے کو آن کر پکڑ لیا کر۔ وہ جب ڈرتی تو کعبے کے پردے سے لٹک جاتی مگر یہ لا علاج رہی۔ امام ابن تیمیہ نے کہا ہے کہ جب پچیس سال کی عمر میں مرگی کا عارضہ ہو تو وہ لا علاج ہو جاتی ہے۔ مولانا عبدالحئی مرحوم فرنگی محلی جو مشہور عالم ہیں بعارضہ مرگی35 سال کی عمر میں انتقال فرما گئے۔ رحمه اللہ(وحیدی) حافظ صاحب فرماتے ہیں وفیه دلیل علیٰ جواز ترك التداوین و فیه أن علاج الأمراض کلھا بالدعا ء و الالتجاء إلی اللہ و أنجح و أنفع من العلاج بالعقاقیر و أن تاثیر ذالك و انفعال البدن عنه أعظم من تأثیر الأدویة البدنة الخافرة(فتح الباري) یعنی اس حدیث میں اس امر پر بھی دلیل ہے کہ دواؤں سے علاج ترک کر دینا بھی جائز ہے اور یہ کہ تمام بیماریوں کا علاج دعاؤں سے اللہ کی طرف رجوع کرنا ادویات سے زیادہ نفع بخش علاج ہے اور بدن ادویات سے زیادہ دعاؤں کا اثر قبول کرتا ہے اوراس میں شک وشبہ کی کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اس لیے دعائیں مومن کا آخر ی ہتھیار ہیں۔ یا اللہ! بصمیم قلب دعا ہے کہ مجھ کو جملہ امراض قلبی و قالبی سے شفائے کاملہ عطا فرما۔ آمین ثم آمین۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ata bin Abi Rabah (RA) : Ibn 'Abbas (RA) said to me, "Shall I show you a woman of the people of Paradise?" I said, "Yes." He said, "This black lady came to the Prophet (ﷺ) and said, 'I get attacks of epilepsy and my body becomes uncovered; please invoke Allah for me.' The Prophet (ﷺ) said (to her), 'If you wish, be patient and you will have (enter) Paradise; and if you wish, I will invoke Allah to cure you.' She said, 'I will remain patient,' and added, 'but I become uncovered, so please invoke Allah for me that I may not become uncovered.' So he invoked Allah for her."