باب: عورتیں مردوں کی بیماری میں پوچھنے کے لیے جا سکتی ہیں
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: The visiting of sick men by women)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
یہ حضرت ابودرداءؓ کی بیوی تھیں جو مسجد میں اپنے خاوند کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔ یہ ام درداءؓ کے نام سے موسوم تھیں۔ باپ کا نام ابو حدرد قبیلہ اسلم سے ہیں بڑی عقلمند متبع سنت عالمہ فاضلہ خاتون تھیں ۔ ان کا انتقال حضرت ابو درداءرؓ سے دوسال پہلے ملک شام میں بعہد خلافت عثمانؓ ہو گیا تھا۔
5654.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: ”ہر آدمی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔“ حضرت بلال ؓ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے: کاش! میں ایسی وادی میں رات بسر کرتا کہ میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوتی۔ کیا میں کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل پہاڑ آئیں گے؟ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ طیبہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔ اس کی وباؤں کو کسی اور جگہ منتقل کر دے، انہیں مقام حجفہ میں بھیج دے۔“
تشریح:
(1) ان دنوں مقام جحفہ میں یہودی آباد تھے جو مسلمانوں کے خلاف آئے دن منصوبے بناتے رہتے تھے، اس لیے آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! مدینہ طیبہ کے بخار کو وہاں بھیج دے۔‘‘ پھر آپ نے خواب میں دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے ایک عورت پراگندہ حالت میں نکل کر جحفہ چلی گئی ہے جس کی تعبیر وباؤں اور بخار وغیرہ کا وہاں منتقل ہونا تھا۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7038) (2) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ عورت، مردوں کی تیمارداری کر سکتی ہے لیکن اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ تو پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ آج بھی ستروحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کسی بھی اجنبی شخص کی تیمارداری کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہاں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 146/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5441
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5654
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5654
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5654
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
ستروحجاب کی پابندی کرتے ہوئے اگر عورت کسی مرد کی تیمارداری کرتی ہے تو ایسا کرنا شریعت کے خلاف نہیں۔ حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کی دو بیویاں تھیں۔ اس ام درداء سے مراد وہ بیوی ہے جس کے ساتھ انہوں نے بعد میں نکاح کیا تھا اور اسے ام درداء صغریٰ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے مسجد نبوی میں ایک انصاری کی مزاج پرسی کی تھی۔ (عمدۃ القاری: 14/639)
یہ حضرت ابودرداءؓ کی بیوی تھیں جو مسجد میں اپنے خاوند کی مزاج پرسی کے لیے حاضر ہوئی تھیں۔ یہ ام درداءؓ کے نام سے موسوم تھیں۔ باپ کا نام ابو حدرد قبیلہ اسلم سے ہیں بڑی عقلمند متبع سنت عالمہ فاضلہ خاتون تھیں ۔ ان کا انتقال حضرت ابو درداءرؓ سے دوسال پہلے ملک شام میں بعہد خلافت عثمانؓ ہو گیا تھا۔
حدیث ترجمہ:
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے تو حضرت ابو بکر ؓ اور حضرت بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ میں ان دونوں کے پاس (مزاج پرسی کے لیے) گئی تو میں نےکہا: اباجان! آپ کا کیا حال ہے؟ بلال! آپ کی صحت کیسی ہے؟ جب حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے: ”ہر آدمی اپنے اہل خانہ میں صبح کرتا ہے۔ حالانکہ موت اس کے جوتے کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہوتی ہے۔“ حضرت بلال ؓ کو جب افاقہ ہوتا تو یہ شعر پڑھتے: کاش! میں ایسی وادی میں رات بسر کرتا کہ میرے ارد گرد اذخر اور جلیل نامی گھاس ہوتی۔ کیا میں کبھی مجنہ کے چشموں پر پہنچوں گا؟ کیا میرے سامنے شامہ اور طفیل پہاڑ آئیں گے؟ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اس کے بعد میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ کو اس امر کی اطلاع دی تو آپ نے بایں الفاظ دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ طیبہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔ اس کی وباؤں کو کسی اور جگہ منتقل کر دے، انہیں مقام حجفہ میں بھیج دے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ان دنوں مقام جحفہ میں یہودی آباد تھے جو مسلمانوں کے خلاف آئے دن منصوبے بناتے رہتے تھے، اس لیے آپ نے دعا فرمائی: ’’اے اللہ! مدینہ طیبہ کے بخار کو وہاں بھیج دے۔‘‘ پھر آپ نے خواب میں دیکھا کہ مدینہ طیبہ سے ایک عورت پراگندہ حالت میں نکل کر جحفہ چلی گئی ہے جس کی تعبیر وباؤں اور بخار وغیرہ کا وہاں منتقل ہونا تھا۔ (صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 7038) (2) اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ عورت، مردوں کی تیمارداری کر سکتی ہے لیکن اس پر اعتراض ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ تو پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہے؟ اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے دیا ہے کہ آج بھی ستروحجاب کی پابندی کے ساتھ عورت کسی بھی اجنبی شخص کی تیمارداری کر سکتی ہے، بشرطیکہ وہاں کسی قسم کا خطرہ نہ ہو۔ (فتح الباري: 146/10)
ترجمۃ الباب:
حضرت ام درداء نے ایک دفعہ اہل مسجد میں سے ایک انصاری مرد کی عیادت کی تھی
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اوران سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر ؓ اور بلال ؓ کو بخار ہو گیا۔ بیان کیا کہ پھر میں ان کے پاس (عیادت کے لیے) گئی اور پوچھا، محترم والد بزرگوار آپ کا مزاج کیسا ہے؟ بلال ؓ سے بھی پوچھا کہ آپ کا کیا حال ہے؟ بیان کیا کہ جب حضرت ابو بکر ؓ کو بخار ہوا تو وہ یہ شعر پڑھا کرتے تھے ”ہر شخص اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے اور موت اس کے تسمے سے بھی زیادہ قریب ہے۔“ اور بلال ؓ کو جب افاقہ ہو تا تو یہ شعر پڑھتے تھے ”کاش مجھے معلوم ہوتا کہ کیا پھر ایک رات وادی میں گزار سکوں گا اور میرے چاروں طرف اذخر اور جلیل (مکہ مکرمہ کی گھاس) کے جنگل ہوں گے اور کیا میں کبھی مجنہ (مکہ سے چند میل کے فاصلہ پرایک بازار) کے پانی پر اترو ں گا اور کیا پھر کبھی شامہ اور طفیل (مکہ کے قریب دو پہاڑوں) کو میں اپنے سامنے دیکھ سکوں گا۔ ”حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ پھر میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت ميں حاضر ہوئی اور آپ کو اس کی اطلاع دی آپ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ کی محبت بھی اتنی ہی کر دے جتنی مکہ کی محبت ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے موافق کر دے اور ہمارے لیے اس کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما، اللہ اس کا بخار کہیں اور جگہ منتقل کر دے اسے مقام جحفہ میں بھیج دے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ مشہور بزرگ حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ ہیں۔ اسلام قبول کرنے پر ان کو اہل مکہ نے بے حد دکھ دیا۔ امیہ بن خلف ان کا آقا بہت ہی زیادہ ستاتا تھا اللہ کی شان یہی امیہ ملعون جنگ بدر میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا۔ آخری زمانہ میں ملک شام میں مقیم ہو گئے تھے اور 63 سال کی عمر میں سنہ20 ھ میں دمشق یا حلب میں انتقال فرمایا، رضي اللہ عنه و أرضاہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : When Allah's Apostle (ﷺ) emigrated to Medina, Abu Bakr (RA) and Bilal (RA) got a fever. I entered upon them and asked, "O my father! How are you? O Bilal (RA) ! How are you?" Whenever fever attacked Abu Bakr, he would recite the following poetic verses: 'Everybody is staying alive among his people, yet death is nearer to him than his shoe laces." And whenever the fever deserted Bilal (RA) , he would recite (two poetic lines): 'Would that I could stay overnight in a valley wherein I would be surrounded by Idhkhir and Jalil (two kinds of good smelling grass). Would that one day I would drink of the water of Majinna and would that Shama and Tafil (two mountains at Makkah) would appear to me.' Then I came and informed Allah's Apostle (ﷺ) about that, whereupon he said, "O Allah! Make us love Madinah as much or more than we love Makkah. O Allah! Make it healthy and bless its Mudd and Sa for us, and take away its fever and put it in Al'Juhfa."