Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To vist a Mushrik)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5657.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی کا لڑکا نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ لڑکا ایک دفعہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اسکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے فرمایا: ”تم اسلام قبول کر لو۔“چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب ہوا تو نبی ﷺ اس کے پاس (عیادت کے لیے) تشریف لے گئے۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور اسے کہا: ’’بیٹے! تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘ وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا: ابو القاسم کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا تو آپ نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔‘‘(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1356) (2) ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر مشرک سے امید ہو کہ وہ اسلام قبول کرے گا تو اس کی عیادت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس طرح کی توقع نہ ہو تو اس کی مزاج پرسی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بات مطلق طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ مختلف حالات کے پیش نظر دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی تیمارداری دوسری مصلحتوں کی وجہ سے بھی کی جا سکتی ہے، مثلاً: اس کا کوئی عزیز مسلمان ہو اس کی حوصلہ افزائی پیش نظر ہو یا اس سے اسلام یا اہل اسلام کو کوئی خطرہ ہو تو اس کی روک تھام مقصود ہو۔ (فتح الباري: 148/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5444
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5657
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5657
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5657
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی کا لڑکا نبی ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ لڑکا ایک دفعہ بیمار ہو گیا تو نبی ﷺ اسکی عیادت کے لیے تشریف لے گئے اور اسے فرمایا: ”تم اسلام قبول کر لو۔“چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب ہوا تو نبی ﷺ اس کے پاس (عیادت کے لیے) تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سر کے پاس بیٹھ گئے اور اسے کہا: ’’بیٹے! تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘ وہ اپنے باپ کی طرف دیکھنے لگا تو اس نے کہا: ابو القاسم کی بات مان لو، چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا تو آپ نے ان الفاظ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا: ’’تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اسے آگ سے بچا لیا۔‘‘(صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1356) (2) ابن بطال نے لکھا ہے کہ اگر مشرک سے امید ہو کہ وہ اسلام قبول کرے گا تو اس کی عیادت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر اس طرح کی توقع نہ ہو تو اس کی مزاج پرسی نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بات مطلق طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ مختلف حالات کے پیش نظر دیگر مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ اس کی تیمارداری دوسری مصلحتوں کی وجہ سے بھی کی جا سکتی ہے، مثلاً: اس کا کوئی عزیز مسلمان ہو اس کی حوصلہ افزائی پیش نظر ہو یا اس سے اسلام یا اہل اسلام کو کوئی خطرہ ہو تو اس کی روک تھام مقصود ہو۔ (فتح الباري: 148/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ثابت نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ ایک یہودی لڑکا (عبدوس نامی) نبی کریم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو حضور اکرم ﷺ اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اسلام قبول کر لے چنانچہ اس نے اسلام قبول کر لیا اور سعید بن مسیب نے بیان کیااپنے والد سے کہ جب ابو طالب کی وفات کا وقت قریب ہوا تو آنحضرت ﷺ ان کے پاس مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے کہ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا باپ نے کہا کہ بیٹا ابو القاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو فرما رہے ہیں وہ مان لے چنانچہ وہ مسلمان ہو گیا۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے حضرت امام بخاری نے اس باب میں ان احادیث کو لا کر یہ ثابت کیا ہے کہ اپنے نوکروں اور غلاموں تک کی اگر وہ بیمار ہوں عیادت کرنا سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : A Jewish boy used to serve the Prophet (ﷺ) and became ill. The Prophet (ﷺ) went to pay him a visit and said to him, "Embrace Islam," and he did embrace Islam. Al-Musaiyab said: When Abu Talib was on his deathbed, the Prophet (ﷺ) visited him.