Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the 'Isha prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
566.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بار رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر فرمائی، یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے، چنانچہ آپ گھر سے نہیں نکلے تا آنکہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ عورتوں اور بچوں کو نیند آ رہی ہے۔ پھر آپ تشریف لائے اور اہل مسجد سے فرمایا: ’’روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے۔‘‘
تشریح:
(1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس روایت سے نماز عشاء کے متعلق کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی،البتہ انتظار عشاء کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں مضاف حذف ہوگا، یعنی عنوان میں نماز عشاء کی فضیلت کے بجائے نماز عشاءکے انتظار کی فضیلت ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:67/2) واضح رہے کہ انتظار کی فضیلت بیان کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےکہ جو شخص مسجد میں نماز کے انتطار میں بیٹھا رہتا ہے۔ (الأذان، باب:36) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حسب ارشاد نبوی یہ وقت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا یہی نماز عشاء کی فضیلت ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ انتطار مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا اور مدینے میں چند ایک مقامات پر نماز پڑھی جاتی تھی اور وہ شفق غائب ہونے کے بعد اول وقت میں پڑھ کرسوجاتے تھے، لیکن عنوان کے ساتھ پہلی توجیہ زیادہ موزوں ہے۔ (شرح تراجم بخاري) علاوہ ازیں انتظار کی فضیلت تو ہر ایک نماز کے لیے ہے، اس میں نماز عشاء کی الگ کوئی خصوصیت نہیں۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:’’روئے زمین پر تمھارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔‘‘ اس حصر کے متعلق مختلف توجیہات حسب ذیل ہیں:٭ یہ حصر اہل کتاب کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم ایسی نماز کے منتظر ہوکہ تمھارے علاوہ اور کسی دین والے اس کے منتظر نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1446(639)) ٭یہ حصر مدینہ منورہ کے اطراف کے اعتبار سے ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ میں لوگ چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے اور مدینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی اسلام پھیلا نہیں تھا، یعنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ صرف مدینہ منورہ میں نماز پڑھی جاتی تھی۔٭یہ حصر مسجد نبوی اعتبار سے ہے کہ دوسری مساجد میں نماز عشاء بلاتاخیر اول وقت میں ہوجاتی تھی، صرف مسجد نبوی میں مخصوص حالات کے پیش نظر تاخیر سے ادا کی جاتی تھی۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے لیے غیر معمولی تاخیر فرمائی تو حضرت عمر ؓ بآواز بلند کہنے لگے کہ نماز کےلیے جو بچے اور عورتیں حاضر ہیں انھیں نیند آنے لگی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ انداز پسند نہ آیا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمھیں رسول اللہ ﷺ سے اس طرح اصرار نہیں کرنا چاہیے، گویا تاخیر کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر تھی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1443(638)) الغرض اس نماز کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر مسلمانوں کو اس نماز سے مشرف فرمایا ہے، اس کا وقت بڑا وسیع ہے، مصروفیات سے فراغت اور خلوت کے خصوصی مواقع میسر فرمائے ہیں، گویا اہل اسلام کی خصوصیت اور ان کی امتیازی علامت ہے، اس لیے انھیں اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
560
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
566
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
566
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
566
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک بار رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں دیر فرمائی، یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے، چنانچہ آپ گھر سے نہیں نکلے تا آنکہ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ عورتوں اور بچوں کو نیند آ رہی ہے۔ پھر آپ تشریف لائے اور اہل مسجد سے فرمایا: ’’روئے زمین پر تمہارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کر رہا ہے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس روایت سے نماز عشاء کے متعلق کوئی خاص فضیلت ثابت نہیں ہوتی،البتہ انتظار عشاء کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں مضاف حذف ہوگا، یعنی عنوان میں نماز عشاء کی فضیلت کے بجائے نماز عشاءکے انتظار کی فضیلت ہونا چاہیے۔ (فتح الباري:67/2) واضح رہے کہ انتظار کی فضیلت بیان کرنے کے لیے امام بخاری ؒ نے آئندہ ایک مستقل عنوان قائم کیا ہےکہ جو شخص مسجد میں نماز کے انتطار میں بیٹھا رہتا ہے۔ (الأذان، باب:36) شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ حسب ارشاد نبوی یہ وقت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے، لہٰذا یہی نماز عشاء کی فضیلت ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ انتطار مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والے صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ مخصوص ہو کیونکہ یہ اسلام کا ابتدائی دور تھا اور مدینے میں چند ایک مقامات پر نماز پڑھی جاتی تھی اور وہ شفق غائب ہونے کے بعد اول وقت میں پڑھ کرسوجاتے تھے، لیکن عنوان کے ساتھ پہلی توجیہ زیادہ موزوں ہے۔ (شرح تراجم بخاري) علاوہ ازیں انتظار کی فضیلت تو ہر ایک نماز کے لیے ہے، اس میں نماز عشاء کی الگ کوئی خصوصیت نہیں۔ (2) اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:’’روئے زمین پر تمھارے علاوہ اور کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔‘‘ اس حصر کے متعلق مختلف توجیہات حسب ذیل ہیں:٭ یہ حصر اہل کتاب کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ تم ایسی نماز کے منتظر ہوکہ تمھارے علاوہ اور کسی دین والے اس کے منتظر نہیں ہیں۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1446(639)) ٭یہ حصر مدینہ منورہ کے اطراف کے اعتبار سے ہے، کیونکہ مکہ مکرمہ میں لوگ چھپ کر نمازیں پڑھتے تھے اور مدینے کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی اسلام پھیلا نہیں تھا، یعنی اس مخصوص ہیئت کے ساتھ صرف مدینہ منورہ میں نماز پڑھی جاتی تھی۔٭یہ حصر مسجد نبوی اعتبار سے ہے کہ دوسری مساجد میں نماز عشاء بلاتاخیر اول وقت میں ہوجاتی تھی، صرف مسجد نبوی میں مخصوص حالات کے پیش نظر تاخیر سے ادا کی جاتی تھی۔ (3) ایک روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے نماز عشاء کے لیے غیر معمولی تاخیر فرمائی تو حضرت عمر ؓ بآواز بلند کہنے لگے کہ نماز کےلیے جو بچے اور عورتیں حاضر ہیں انھیں نیند آنے لگی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو یہ انداز پسند نہ آیا، چنانچہ آپ نے فرمایا کہ تمھیں رسول اللہ ﷺ سے اس طرح اصرار نہیں کرنا چاہیے، گویا تاخیر کسی مجبوری یا مصلحت کی بنا پر تھی۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1443(638)) الغرض اس نماز کی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خصوصی طور پر مسلمانوں کو اس نماز سے مشرف فرمایا ہے، اس کا وقت بڑا وسیع ہے، مصروفیات سے فراغت اور خلوت کے خصوصی مواقع میسر فرمائے ہیں، گویا اہل اسلام کی خصوصیت اور ان کی امتیازی علامت ہے، اس لیے انھیں اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ سے کہ عائشہ ؓ نے انھیں خبر دی کہ ایک رات رسول کریم ﷺ نے عشاء کی نماز دیر سے پڑھی۔ یہ اسلام کے پھیلنے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ ﷺ اس وقت تک باہر تشریف نہیں لائے جب تک حضرت عمر ؓ نے یہ نہ فرمایا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پس آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا کہ تمہارے علاوہ دنیا میں کوئی بھی انسان اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
یعنی اس وقت تک مدینہ کے سوا اور کہیں مسلمان نہ تھے، یا یہ کہ ایسی شان والی نماز کے انتظار کا ثواب اللہ نے صرف امت محمدیہ ہی کی قسمت میں رکھا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA): Allah's Apostle (ﷺ) once delayed the 'Isha' prayer and that was during the days when Islam still had not spread. The Prophet (ﷺ) did not come out till 'Umar informed him that the women and children had slept. Then he came out and said to the people of the mosque:"None amongst the dwellers of the earth has been waiting for it ('Isha prayer) except you."