باب: مریض کی عیادت کو سوار ہو کر یا پیدل یا گدھے پر کسی کے پیچھے بیٹھ کر جانا ہر طرح جائز درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To visit a patient riding, walking or sitting with another person on a donkey)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5663.
حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہمیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔ اپنے گھر جاؤ وہاں ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! آپ ہماری مجلس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اسکے بعد مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ انہیں خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے۔ پھر نبی ﷺ سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ بولے اللہ کے رسول! بے شک اللہ تعالٰی نے آپ کو وہ منصب دیا ہے جو آپ ہی کے لائق تھا۔ دراصل اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہو گئے تھے اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر پگڑی باندھیں لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی بدولت خاک میں ملا دیا جو آپ کو ملا ہے تو وہ اس پر بگڑ گیا ہے اور یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔
تشریح:
(1) اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ حدیث پیش کرنے سے یہی مقصد ہے۔ (2) حدیث میں عبداللہ بن ابی کا ذکر ضمنی طور پر آ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد سے پہلے یہ منافق اپنی سرداری کے خواب دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خاک میں مل گئے، اس لیے یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آخر وقت تک اسلام کو ختم کرنے کے درپے رہا، پھر غم کے گھونٹ بھرتے بھرتے اسے موت نے آ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے وہ لائق ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5450
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5663
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5663
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5663
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
حضرت اسامہ بن زیدسے روایت ہے انہوں نے بتایا کہ نبی ﷺ ایک مرتبہ گدھے کے پالان (جھول یا کاٹھی) پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا۔ آپ غزوہ بدر سے پہلے حضرت سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کے لیے تشریف لے جا رہے تھے آپ چلتے رہے کہ ایک مجلس کے پاس سے گزرے جس میں عبداللہ بن ابی ابن سلول بھی تھا وہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔ اس مجلس میں ملے جلے لوگ مسلمان، مشرک یعنی بت پرست اور یہودی تھے۔ ان میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے۔ جب سواری کی گرد و غبار مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی چادر سے اپنی ناک ڈھانپ لی اور کہنے لگا کہ ہم پر غبار نہ اُڑاؤ۔ نبی ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے۔ پھر آپ نے انہیں دعوت اسلام دی اور قرآن کریم پڑھ کر سنایا تو عبداللہ بن ابی نے کہا: تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق بھی ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہمیں تکلیف نہ پہنچاؤ۔ اپنے گھر جاؤ وہاں ہم میں سے جو تمہارے پاس آئے اسے بیان کرو۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! کیوں نہیں! آپ ہماری مجلس میں تشریف لایا کریں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اسکے بعد مسلمانوں مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑا شروع ہو گیا۔ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے پر حملہ کر دیتے۔ رسول اللہ ﷺ انہیں خاموش کراتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے۔ پھر نبی ﷺ سواری پر سوار ہو کر حضرت سعد بن عبادہ ؓ بولے اللہ کے رسول! بے شک اللہ تعالٰی نے آپ کو وہ منصب دیا ہے جو آپ ہی کے لائق تھا۔ دراصل اس بستی کے لوگ اس بات پر متفق ہو گئے تھے اس کی تاج پوشی کریں اور اس کے سر پر پگڑی باندھیں لیکن جب اللہ تعالٰی نے اس منصوبے کو اس حق کی بدولت خاک میں ملا دیا جو آپ کو ملا ہے تو وہ اس پر بگڑ گیا ہے اور یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے وہ اسی وجہ سے ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار ہو کر اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی تیمارداری کے لیے تشریف لے گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ حدیث پیش کرنے سے یہی مقصد ہے۔ (2) حدیث میں عبداللہ بن ابی کا ذکر ضمنی طور پر آ گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ آمد سے پہلے یہ منافق اپنی سرداری کے خواب دیکھ رہا تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے خاک میں مل گئے، اس لیے یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آخر وقت تک اسلام کو ختم کرنے کے درپے رہا، پھر غم کے گھونٹ بھرتے بھرتے اسے موت نے آ لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ وہی معاملہ کرے جس کے وہ لائق ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے، انہیں اسامہ بن زید ؓ نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ گدھے کی پالان پر فدک کی چادر ڈال کر اس پر سوار ہوئے اور اسامہ بن زید ؓ کو اپنے پیچھے سوار کیا، آنحضرت ﷺ سعد بن عبادہ ؓ کی عیادت کو تشریف لے جا رہے تھے، یہ جنگ بدر سے پہلے کا واقعہ ہے۔ آنحضرت ﷺ روانہ ہوئے اورایک مجلس سے گزر ے جس میں عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا۔ عبداللہ ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا اس مجلس میں ہر گروہ کے لوگ تھے مسلمان بھی، مشرکین بھی یعنی بت پرست اور یہودی بھی۔ مجلس میں عبداللہ بن رواحہ ؓ بھی تھے، سواری کی گرد جب مجلس تک پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی چادر اپنی ناک پر رکھ لی اور کہا کہ ہم پر گرد نہ اڑاؤ۔ پھر آنحضرت ﷺ نے انہیں سلام کیا اور سواری روک کر وہاں اتر گئے پھر آپ نے انہیں اللہ کے طرف بلایا اور قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ اس پر عبداللہ بن ابی نے کہا میاں تمہاری باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں اگر حق ہیں تو ہماری مجلس میں انہیں بیان کر کے ہم کو تکلیف نہ پہنچايا کرو، اپنے گھر جاؤ وہاں جو تمہارے پاس آئے اس سے بیان کرو۔ اس پر حضرت ابن رواحہ ؓ نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ! آپ ہماری مجلسوں میں ضرور تشریف لائیں کیونکہ ہم ان باتوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس پر مسلمانوں، مشرکوں اور یہودیوں میں جھگڑ ے بازی ہو گئی اورقریب تھا کہ ایک دوسرے پر حملہ کر بیٹھتے لیکن آپ انہیں خاموش کرتے رہے یہاں تک کہ سب خاموش ہو گئے پھر آنحضرت ﷺ اپنی سواری پر سوار ہو کر سعد بن عبادہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا سعد! تم نے سنا نہیں ابو حباب نے کیا کہا، آپ کا اشارہ عبداللہ بن ابی کی طرف تھا۔ اس پر حضرت سعد ؓ بولے کہ یا رسول اللہ! اسے معاف کر دیجئے اور اس سے در گزر فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ نعمت عطا فرما دی جو عطا فرمانی تھی (آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے) اس بستی کے لوگ اس پر متفق ہو گئے تھے کہ اسے تاج پہنا دیں اور اپنا سردار بنا لیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس منصوبہ کو اس حق کے ذریعہ جو آپ کو اس نے عطا فرمایا ہے ختم کر دیا تو وہ اس پر بگڑ گیا یہ جو کچھ معاملہ اس نے آپ کے ساتھ کیا ہے اسی کا نتیجہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
اس موقع پر آنحضرت گدھے پر سوار ہو کر مذکورہ صورت میں تشریف لے گئے تھے۔ باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔ اس میں عبداللہ بن ابی منافق کا ذکر ضمنی طور پر آیا ہے۔ یہ منافق آپ کے مدینہ آنے سے پہلے اپنی بادشاہی کا خواب دیکھ رہا تھا جو آپ کی تشریف آوری سے غلط ہو گیا، اسی لیے یہ بظاہر مسلمان ہو کر بھی آخر وقت تک اسلام کی بیخ کنی کے درپے رہا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Usama bin Zaid (RA) : The Prophet (ﷺ) rode a donkey having a saddle with a Fadakiyya velvet covering. He mounted me behind him and went to visit Sad bin 'Ubadah, and that had been before the battle of Badr. The Prophet (ﷺ) proceeded till he passed by a gathering in which 'Abdullah bin Ubai bin Salul was present, and that had been before 'Abdullah embraced Islam. The gathering comprised of Muslims, polytheists, i.e., isolators and Jews. 'Abdullah bin Rawaha was also present in that gathering. When dust raised by the donkey covered the gathering, 'Abdullah bin Ubai covered his nose with his upper garment and said, "Do not trouble us with dust." The Prophet (ﷺ) greeted them, stopped and dismounted. Then he invited them to Allah (i.e., to embrace Islam) and recited to them some verses of the Holy Qur'an. On that, 'Abdullah bin Ubai said, "O man ! There is nothing better than what you say if it is true. Do not trouble us with it in our gathering, but return to your house, and if somebody comes to you, teach him there." On that 'Abdullah bin Rawaha said, Yes, O Allah's Apostle (ﷺ) ! Bring your teachings to our gathering, for we love that." So the Muslims, the pagans and the Jews started abusing each other till they were about to fight. The Prophet (ﷺ) kept on quietening them till they became calm. Thereupon the Prophet (ﷺ) mounted his animal and proceeded till he entered upon Sad bin Ubadah. He said to him "O Sad! Have you not heard what Abu Hubab (i.e., 'Abdullah bin Ubai) said?" Sad said, 'O Allah's Apostle (ﷺ) ! Excuse and forgive him, for Allah has given you what He has given you. The people of this town (Medina decided unanimously to crown him and make him their chief by placing a turban on his head, but when that was prevented by the Truth which Allah had given you he ('Abdullah bin Ubai) was grieved out of jealously, and that was the reason which caused him to behave in the way you have seen."