باب: مریض کا یوں کہنا کہ مجھے تکلیف ہے یا یوں کہناکہ ” ہائے میرا سر دکھ رہا ہے یا میری تکلیف بہت بڑھ گئی “
)
Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: To say "I am sick," or "Oh, my head!" or "My ailment has been aggravated")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
5666.
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: میرا سر درد! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کروں گا اور دعا مانگوں گا۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: ہائے افسوس! اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق اپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو اسی دن رات کسی بیوی کے ہاں بسر کریں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ مٰیں ابو بکر اور ان کے بیٹے کو پیغام بھیجوں اور وصیت کروں کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں اور تمنا کرنے والے کسی اور بات کی خواہش کریں پھر میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دے گا اور نہ مسلمان ہی کسی دوسرے کی خلافت کو قبول کریں گے۔
تشریح:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں ایک نماز جنازہ پڑھ کر واپس آئے تو میرے سر میں شدید درد تھا۔ میں مارے درد کے کہہ رہی تھی: ’’ہائے میرا سر درد۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تجھے غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا، نماز جنازہ پڑھوں گا، پھر تجھے دفن کروں گا۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تکلیف شروع ہوئی جس میں آپ نے وفات پائی۔ (مسند أحمد: 228/6، و فتح الباري: 154/10) (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت کسی مخلوق کے سامنے اپنے دکھ درد یا بیماری کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5453
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5666
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5666
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5666
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
مریض اگر اپنے دکھ درد کا اظہار کرتا ہے تو یہ جائز ہے۔ ایسا کرنا بے صبری میں داخل نہیں ہے کیونکہ ہر آدمی بیماری کے باعث تکلیف محسوس کرتا ہے اور بیماری کا شکوہ کرتا ہے، البتہ مذموم شکوہ وہ ہے جو لوگوں کے سامنے اظہار افسوس کے لیے اپنی بیماری کا ذکر کرتا ہے۔ ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا یہ کہنا بھی منصب نبوت کے خلاف نہیں کیونکہ انہوں نے اپنے رب کے حضور بطور عاجزی دعا کی تھی، مخلوق سے اپنی بیماری کا شکوہ نہیں کیا تھا۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ ان صوفیاء کی تردید کرنا چاہتے ہیں جو کہتے ہیں کہ مصائب و آلام کے دور ہونے کی دعا بھی تسلیم و وضا کے منافی ہے، اس لیے انہوں نے تنبیہ فرمائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا مطالبہ کسی طرح بھی ممنوع نہیں۔
اور حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا بھی اسی قبیل سے ہے کہ ” اے میرے رب ! مجھے سراسر تکالیف نے گھیر لیا ہے اور تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے ‘‘
حدیث ترجمہ:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے ایک مرتبہ کہا: میرا سر درد! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تمہارے لیے اللہ تعالٰی سے مغفرت طلب کروں گا اور دعا مانگوں گا۔“ سیدہ عائشہ ؓ نے کہا: ہائے افسوس! اللہ کی قسم! میرے گمان کے مطابق اپ میرا مرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو گیا تو اسی دن رات کسی بیوی کے ہاں بسر کریں گے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: بلکہ میں تو خود درد سر میں مبتلا ہوں۔ میں نے ارادہ کیا تھا کہ مٰیں ابو بکر اور ان کے بیٹے کو پیغام بھیجوں اور وصیت کروں کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں اور تمنا کرنے والے کسی اور بات کی خواہش کریں پھر میں نے (اپنے جی میں) کہا کہ اللہ تعالٰی حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے علاوہ کسی اور کو خلیفہ نہ ہونے دے گا اور نہ مسلمان ہی کسی دوسرے کی خلافت کو قبول کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع الغرقد میں ایک نماز جنازہ پڑھ کر واپس آئے تو میرے سر میں شدید درد تھا۔ میں مارے درد کے کہہ رہی تھی: ’’ہائے میرا سر درد۔‘‘ ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو فوت ہو گئی اور میں زندہ رہا تو میں تجھے غسل دوں گا، کفن پہناؤں گا، نماز جنازہ پڑھوں گا، پھر تجھے دفن کروں گا۔‘‘ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ تکلیف شروع ہوئی جس میں آپ نے وفات پائی۔ (مسند أحمد: 228/6، و فتح الباري: 154/10) (2) بہرحال امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت کسی مخلوق کے سامنے اپنے دکھ درد یا بیماری کا اظہار کیا جا سکتا ہے اور ایسا کرنا تسلیم و رضا کے منافی نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حضرت ایوب ؑ کا یہ کہنا: بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن یحییٰ ابو زکریا نے بیان کیا، کہا ہم کو سلیمان بن بلال نے خبر دی، ان سے یحییٰ بن سعید نے، کہ میں نے قاسم بن محمد سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ (سر کے شدید درد کی وجہ سے) عائشہ ؓ نے کہا ہائے رے سر! اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر ایسا میری زندگی میں ہو گیا (یعنی تمہارا انتقال ہو گیا) تو میں تمہارے لیے استغفار اور دعا کروں گا۔ عائشہ ؓ نے کہا افسوس، اللہ کی قسم! میرا خیال ہے کہ آپ میرا مرجانا ہی پسند کرتے ہیں اور اگر ایسا ہو گیا تو آپ تو اسی دن رات اپنی کسی بیوی کے یہاں گزاریں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا بلکہ میں خود درد سر میں مبتلاہوں۔ میرا ارادہ ہو تا تھا کہ ابو بکر ؓ اور ان کے بیٹے کو بلا بھیجوں اور انہیں (خلافت کی) وصیت کر دوں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کہنے والے کچھ اور کہیں (کہ خلافت ہمارا حق ہے) یا آرزو کرنے والے کسی اور بات کی آرزو کریں (کہ ہم خلیفہ ہو جائیں) پھر میں نے اپنے جی میں کہا (اس کی ضرورت ہی کیا ہے) خود اللہ تعالیٰ ابو بکر ؓ کے سوا اور کسی کو خلیفہ نہ ہونے دے گا نہ مسلمان اور کسی کی خلافت ہی قبول کریں گے۔
حدیث حاشیہ:
جیسا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا انہوں نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی کو خلیفہ کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف و صریح سب لوگوں کے سامنے ان کو اپنا جانشین نہیں کیا تھا مگر منشائے خدا وندی بھی یہی تھا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ان کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ ان کے بعد علی رضی اللہ عنہ، منشائے ایزدی پورا ہوا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Al-Qasim bin Muhammad (RA) : 'Aisha (RA), (complaining of headache) said, "Oh, my head"! Allah's Apostle (ﷺ) said, "I wish that had happened while I was still living, for then I would ask Allah's Forgiveness for you and invoke Allah for you." Aisha (RA) said, "Wa thuklayah! By Allah, I think you want me to die; and If this should happen, you would spend the last part of the day sleeping with one of your wives!" The Prophet (ﷺ) said, "Nay, I should say, 'Oh my head!' I felt like sending for Abu Bakr (RA) and his son, and appoint him as my successor lest some people claimed something or some others wished something, but then I said (to myself), 'Allah would not allow it to be otherwise, and the Muslims would prevent it to be otherwise".