Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the 'Isha prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
567.
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اور میرے وہ رفقاء جو میرے ساتھ کشتی میں آئے تھے، وادی بطحان میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے جبکہ نبی ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف فر تھے۔ چنانچہ ہر رات عشاء کی نماز کے لیے چند آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے۔ ایک دن میں اور میرے ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ اس دن کسی کام میں مصروف تھے اور آپ نے نماز عشاء میں اس قدر تاخیر فرمائی کہ آدھی رات ہو گئی۔ آخر نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ نے حاضرین سے فرمایا: ’’ذرا ٹھہرو، تمہیں مبارک ہو کیونکہ تم پر اللہ کی یہ نعمت ہے کہ اس وقت تمہارے علاوہ لوگوں میں سے اور کوئی نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔’’ یا فرمایا:‘‘ اس وقت تمہارے سوا کسی نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘ معلوم نہیں آپ نے ان دو باتوں میں سے کون سی بات ارشاد فرمائی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور خوشی خوشی واپس آئے۔
تشریح:
(1) مسجد نبوی میں نماز عشاء سے متعلق متعدد واقعات مختلف اوقات میں پیش آئے: حضرت عائشہ ؓ کا بیان کردہ واقعہ آغاز اسلام میں پیش آیا، جیسا کہ سابقہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اس کے کافی عرصے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ان کے رفقاء کا مذکورہ واقعہ پیش آیا کیونکہ وہ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے نکلے تھے مگر سمندری سفر کے دوران میں انھیں تیز آندھی نے حبشہ پہنچا دیا۔ وہاں سات سال حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ قیام فرمایا، پھر وہاں ان کی معیت میں مدینہ منورہ پہنچے اور وادئ بطحان میں پڑاؤ کیا۔ وہاں سے باری باری کچھ افراد ہررات عشاء کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ مذکورہ واقعہ اسی دور کا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4230) اس کے بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا جسے حضرت ابن عباس ؓ کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے تھے۔ ظاہر ہے ان کا چشم دید واقعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے واقعے کے بعد پیش آیا ہوگا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:571) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء میں تاخیر مسجد نبوی ہی میں ہوا کرتی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مختلف اطراف سے علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہمہ وقت مشغولیت اور شبانہ روز تعلیم و تربیت کے اہتمام کی وجہ سے نماز عشاء میں تاخیر ہوجاتی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اتنی تاخیر کی ضرورت مسجد نبوی کے علاوہ کسی اور مسجد میں پیش نہیں آتی ہوگی۔ والله أعلم۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء کے متعلق یہ غیر معمولی تاخیر کسی لشکر کی ترتیب کی بنا پر تھی۔ بہر حال جب آپ نے آدھی رات کے بعد نماز عشاء پڑھائی تو اپ نے حاضرین کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس وقت تمھارے علاوہ کوئی بھی نماز پڑھنے والا نہیں ہے، یعنی تمھارا انتظار اسلام کی ایک مخصوص اور امتیازی نماز کے لیے تھا، اس لیے یہ اجرو ثواب سے خالی نہیں بلکہ اس میں تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر اس قدر خوش ہوکر واپس ہوئے جس کی انتہا نہیں، کیونکہ ہمیں نماز عشاء کے عمل اور اس کے انتظار پر رسول اللہ ﷺ نے خوش خبری سنائی تھی۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
561
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
567
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
567
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
567
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں اور میرے وہ رفقاء جو میرے ساتھ کشتی میں آئے تھے، وادی بطحان میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے جبکہ نبی ﷺ مدینہ منورہ میں تشریف فر تھے۔ چنانچہ ہر رات عشاء کی نماز کے لیے چند آدمی نبی ﷺ کی خدمت میں باری باری حاضر ہوتے۔ ایک دن میں اور میرے ساتھی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ اس دن کسی کام میں مصروف تھے اور آپ نے نماز عشاء میں اس قدر تاخیر فرمائی کہ آدھی رات ہو گئی۔ آخر نبی ﷺ باہر تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز سے فراغت کے بعد آپ نے حاضرین سے فرمایا: ’’ذرا ٹھہرو، تمہیں مبارک ہو کیونکہ تم پر اللہ کی یہ نعمت ہے کہ اس وقت تمہارے علاوہ لوگوں میں سے اور کوئی نماز نہیں پڑھ رہا ہے۔’’ یا فرمایا:‘‘ اس وقت تمہارے سوا کسی نے یہ نماز نہیں پڑھی۔‘‘ معلوم نہیں آپ نے ان دو باتوں میں سے کون سی بات ارشاد فرمائی۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ ﷺ سے یہ بات سن کر بہت خوش ہوئے اور خوشی خوشی واپس آئے۔
حدیث حاشیہ:
(1) مسجد نبوی میں نماز عشاء سے متعلق متعدد واقعات مختلف اوقات میں پیش آئے: حضرت عائشہ ؓ کا بیان کردہ واقعہ آغاز اسلام میں پیش آیا، جیسا کہ سابقہ حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔ اس کے کافی عرصے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ اور ان کے رفقاء کا مذکورہ واقعہ پیش آیا کیونکہ وہ یمن سے رسول اللہ ﷺ کی زیارت کے لیے نکلے تھے مگر سمندری سفر کے دوران میں انھیں تیز آندھی نے حبشہ پہنچا دیا۔ وہاں سات سال حضرت جعفر طیار ؓ کے ہمراہ قیام فرمایا، پھر وہاں ان کی معیت میں مدینہ منورہ پہنچے اور وادئ بطحان میں پڑاؤ کیا۔ وہاں سے باری باری کچھ افراد ہررات عشاء کے وقت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ مذکورہ واقعہ اسی دور کا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازی، حدیث:4230) اس کے بعد اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا جسے حضرت ابن عباس ؓ کرتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓ ہجرت کے آٹھویں سال مدینہ طیبہ میں حاضر ہوئے تھے۔ ظاہر ہے ان کا چشم دید واقعہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کے واقعے کے بعد پیش آیا ہوگا۔ (صحیح البخاري، مواقیت الصلاة، حدیث:571) ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء میں تاخیر مسجد نبوی ہی میں ہوا کرتی تھی کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مختلف اطراف سے علوم دینیہ کی تحصیل کے لیے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم آتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی ہمہ وقت مشغولیت اور شبانہ روز تعلیم و تربیت کے اہتمام کی وجہ سے نماز عشاء میں تاخیر ہوجاتی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ اتنی تاخیر کی ضرورت مسجد نبوی کے علاوہ کسی اور مسجد میں پیش نہیں آتی ہوگی۔ والله أعلم۔ (2) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء کے متعلق یہ غیر معمولی تاخیر کسی لشکر کی ترتیب کی بنا پر تھی۔ بہر حال جب آپ نے آدھی رات کے بعد نماز عشاء پڑھائی تو اپ نے حاضرین کو خوشخبری سنائی کہ اللہ تعالیٰ کا خاص احسان ہے کہ اس وقت تمھارے علاوہ کوئی بھی نماز پڑھنے والا نہیں ہے، یعنی تمھارا انتظار اسلام کی ایک مخصوص اور امتیازی نماز کے لیے تھا، اس لیے یہ اجرو ثواب سے خالی نہیں بلکہ اس میں تمھارے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی بات سن کر اس قدر خوش ہوکر واپس ہوئے جس کی انتہا نہیں، کیونکہ ہمیں نماز عشاء کے عمل اور اس کے انتظار پر رسول اللہ ﷺ نے خوش خبری سنائی تھی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطہ سے، انھوں نے ابربردہ سے انھوں نے حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نے اپنے ان ساتھیوں کے ساتھ جو کشتی میں میرے ساتھ ( حبشہ سے ) آئے تھے ''بقیع بطحان'' میں قیام کیا۔ اس وقت نبی ﷺ مدینہ میں تشریف رکھتے تھے۔ ہم میں سے کوئی نہ کوئی عشاء کی نماز میں روزانہ باری مقرر کر کے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ اتفاق سے میں اور میرے ایک ساتھی ایک مرتبہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ اپنے کسی کام میں مشغول تھے۔ ( کسی ملی معاملہ میں آپ ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ گفتگو فر رہے تھے ) جس کی وجہ سے نماز میں دیر ہو گئی اور تقریباً آدھی رات گزر گئی۔ پھر نبی کریم ﷺ تشریف لائے اور نماز پڑھائی۔ نماز پوری کر چکے تو حاضرین سے فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ پر وقار کے ساتھ بیٹھے رہو اور ایک خوش خبری سنو۔ تمہارے سوا دنیا میں کوئی بھی ایسا آدمی نہیں جو اس وقت نماز پڑھتا ہو، یا آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ تمہارے سوا اس وقت کسی ( امت ) نے بھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ یہ یقین نہیں کہ آپ نے ان دو جملوں میں سے کون سا جملہ کہا تھا۔ پھر راوی نے کہا کہ ابوموسیٰ ؓ نے فرمایا۔ پس ہم نبی کریم ﷺ سے یہ سن کر بہت ہی خوش ہو کر لوٹے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ نے ہجرت حبشہ سے واپسی کے بعد بقیع بطحان میں قیام فرمایا۔ بقیع ہر اس جگہ کو کہا جاتا تھا، جہاں مختلف قسم کے درخت وغیرہ ہوتے۔ بطحان نام کی وادی مدینہ کے قریب ہی تھی۔ امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ امم سابقہ میں عشاء کی نماز نہ تھی اس لیے آپ ﷺ نے اپنی امت کو یہ بشارت فرمائی جسے سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نہایت خوشی حاصل ہوئی۔ یہ مطلب بھی ہوسکتاہے کہ مدینہ شریف کی دیگرمساجد میں لوگ نماز عشاءسے فارغ ہوچکے، لیکن مسجدنبوی کے نمازی انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے، اس لیے ان کو یہ فضیلت حاصل ہوئی۔ بہرحال عشاءکی نماز کے لیے تاخیر مطلوب ہے۔ ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگرمیری امت پر شاق نہ گزرتا تومیں عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے پر ہی پڑھا کرتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA): My companions, who came with me in the boat and I landed at a place called Baqi Buthan. The Prophet (ﷺ) was in Madinah at that time. One of us used to go to the Prophet (ﷺ) by turns every night at the time of the Isha prayer. Once I along with my companions went to the Prophet (ﷺ) and he was busy in some of his affairs, so the 'Isha' prayer was delayed to the middle of the night He then came out and led the people (in prayer). After finishing from the prayer, he addressed the people present there saying, "Be patient! Don't go away. Have the glad tiding. It is from the blessing of Allah upon you that none amongst mankind has prayed at this time save you." Or said, "None except you has prayed at this time." Abu Muisa added, 'So we returned happily after what we heard from Alllah's Apostle."