Sahi-Bukhari:
Patients
(Chapter: The patient’s wish for death)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5674.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا جبکہ ”آپ میرا سہارا لیے ہوئے تھے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم اور مجھے رفیق اعلٰی سے ملا دے۔“
تشریح:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عنوان کے آخر میں بیان کیا ہے، اس میں اشارہ ہے کہ موت کی آرزو اس وقت منع ہے جب موت کے اثرات سامنے نہ آئے ہوں لیکن جب موت بالکل سر پر آن کھڑی ہو تو اس وقت موت کی دعا کرنا منع نہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔ (فتح الباري: 162/10) واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5461
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5674
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5674
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5674
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور کائنات کی ہر چیز اس کے لیے بنائی ہے تاکہ وہ اس سے فائدہ حاصل کر کے اس کی عبادت میں مصروف رہے اور ان پر غوروفکر کر کے اس کی معرفت حاصل کرے، پھر جب وہ حد اعتدال سے گزر جاتا ہے تو مریض بن جاتا ہے۔ اگر کھانے پینے میں حد اعتدال سے آگے نکلا تو کئی جسمانی بیماریوں کا شکار ہو گا اور اگر غوروفکر کرنے میں افراط و تفریط میں مبتلا ہوا تو بے شمار روحانی امراض اسے اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جس نے زمین کی تمام چیزیں تمہارے لیے پیدا کی ہیں۔" (البقرۃ: 2/29) ان چیزوں میں جو مضر صحت تھیں یا جو انسانی غیرت و آبرو یا عقل کے لیے نقصان دہ تھیں انہیں حرام قرار دے کر باقی چیزیں انسان کے لیے حلال کر دیں۔ ان چیزوں کی کمی بیشی سے انسانی صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔اہل علم نے بیماری کی دو قسمیں ذکر کی ہیں: ٭ دل کی بیماریاں۔ ٭ جسم کی بیماریاں۔ دل کی بیماریوں کے دو سبب ہیں: ٭ شکوک و شبہات: اللہ تعالیٰ کی تعلیمات میں شکوک و شبہات سے نفاق اور کفر و عناد پیدا ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کا ذکر کیا ہے: "ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں بڑھا دیا ہے۔" (البقرۃ: 2/10) یہ نفاق اور کفر و عناد کی بیماری ہے جو شکوک و شبہات سے پیدا ہوتی ہے۔ ٭ شہوات و خواہشات: انسانیت سے نکل کر حیوانیت میں چلے جانا، شہوات کہلاتا ہے۔ ان سے جو بیماری پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی ذکر کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کی بیماری ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔" (الاحزاب: 33/32) اس آیت کریمہ میں جس بیماری کا ذکر ہے وہ شہوات کی بیماری ہے۔ دل کی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے رسولوں کی تعلیمات سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان بیماریوں کے اسباب و علاج کی معرفت صرف رسولوں کے ذریعے سے ممکن ہے۔ اس سلسلے میں وہی روحانی طبیب ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت، دلی بیماریوں کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت و رحمت آ پہنچی ہے۔" (یونس: 10/57) بدن کی بیماریاں مزاج میں تبدیلی سے پیدا ہوتی ہیں۔ انسانی مزاج چار چیزوں سے مرکب ہے: سردی، گرمی، خشکی اور رطوبت۔ جب ان میں کمی بیشی ہوتی ہے تو اس سے جسمانی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔فقہاء نے بیماریوں کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے: ٭ ایسی بیماری جو خطرناک نہیں ہوتی، جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: آنکھ کا دُکھنا یا معمولی سر درد اور ہلکا پھلکا بخار وغیرہ۔ ٭ ایسی بیماری جو دیر تک رہتی ہے، جیسے: فالج، تپ دق وغیرہ۔ اس قسم کی بیماری کے باوجود انسان صاحب فراش نہیں ہوتا بلکہ چلتا پھرتا رہتا ہے۔ ٭ خطرناک بیماری جس سے موت واقع ہونے کا اندیشہ ہو، جیسے: دماغ کی شریانوں کا پھٹ جانا یا انتڑیوں وغیرہ کا کٹ جانا۔ ایسی بیماری سے انسان جلد ہی موت کا لقمہ بن جاتا ہے۔ ٭ ایسی خطرناک بیماری جس سے جلد موت واقع ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا، جیسے: دل کا بڑھ جانا یا جگر و گردوں کا خراب ہونا۔ پھر بیماری کے حوالے سے مریض کے متعلق احکام و مسائل اور حقوق و واجبات ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت بیماری اور بیماروں کے متعلق معلومات فراہم کی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے اڑتالیس (48) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں سے سات (7) معلق اور باقی اکتالیس (41) متصل سند سے مروی ہیں، پھر چونتیس (34) مکرر اور چودہ (14) خالص ہیں۔ ان میں سے چار (4) کے علاوہ دیگر احادیث کو امام مسلم رحمہ اللہ نے بھی بیان کیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے مرفوع احادیث کے علاوہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے مروی تین (3) آثار بھی پیش کیے ہیں، پھر بیماری اور مریض کے متعلق بائیس (22) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں جن سے ان کی قوت فہم اور دقت نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چیدہ چیدہ عنوان حسب ذیل ہیں: ٭ بیماری گناہوں کا کفارہ ہے۔ ٭ بیماری کی شدت اور اس کی حیثیت۔ ٭ بیمار کی تیمارداری ضروری ہے۔ ٭ بے ہوش آدمی کی عیادت کرنا۔ ٭ عورتیں، مردوں کی عیادت کر سکتی ہیں۔ ٭ مشرک کی عیادت بھی جائز ہے۔ ٭ عیادت کے وقت کیا کہا جائے؟ ٭ مریض آدمی کا موت کی آرزو کرنا۔ ہم نے حسب توفیق و استطاعت ان احادیث پر تشریحی نوٹ بھی لکھیں ہیں۔ مطالعہ کے وقت انہیں پیش نظر رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی رحمت والی بابرکت تندرستی کی نعمت عطا کرے اور ہر قسم کی بیماری سے محفوظ رکھے۔ آمین
تمہید باب
مصیبت کے وقت موت کی تمنا کرنا ممنوع ہے، ہاں اگر آخرت خراب ہونے کا خطرہ ہو تو وہ امتناعی حکم میں داخل نہیں ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد دعا کرتے تھے: "اے اللہ! اگر تو کسی قوم کے ساتھ فتنے کا ارادہ کرے تو مجھے فتنے میں مبتلا کیے بغیر فوت کر لینا۔" (الموطا لامام مالک: 1/170)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا جبکہ ”آپ میرا سہارا لیے ہوئے تھے: اے اللہ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم اور مجھے رفیق اعلٰی سے ملا دے۔“
حدیث حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو عنوان کے آخر میں بیان کیا ہے، اس میں اشارہ ہے کہ موت کی آرزو اس وقت منع ہے جب موت کے اثرات سامنے نہ آئے ہوں لیکن جب موت بالکل سر پر آن کھڑی ہو تو اس وقت موت کی دعا کرنا منع نہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات میں کوئی چیز حائل نہ ہو۔ (فتح الباري: 162/10) واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ میراسہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے اے اللہ تعالیٰ! میری مغفرت فرما مجھ پررحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری اس حدیث کو باب کے آخر میں اس لیے لائے کہ موت کی آرزو کرنا اس وقت تک نہیں ہے جب تک موت کی نشانیاں نہ پیدا ہوئی ہوں لیکن جب موت بالکل سر پر آن کھڑی ہو اس وقت دعا کرنا منع نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) , who was resting against me, saying, "O Allah! Excuse me and bestow Your Mercy on me and let me join with the highest companions (in Paradise)." See Qur'an (4.69)