باب: کیا مرد کبھی عورت کا یا کبھی عورت مرد کا علاج کرسکتی ہے
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: May a man treat a woman or a woman treat a man?)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5679.
حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوات میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ ہم مجاہدین کو پانی پلاتیں، ان کی خدمت بجا لاتیں، نیزمقتولین اور زخمیوں کو مدینہ طیبہ لایا کرتی تھیں۔
تشریح:
(1) اس روایت میں علاج کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب عادت اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں علاج معالجے کی صراحت ہے، چنانچہ فرماتی ہیں کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2882) (2) کتاب الجہاد میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب مداواة النساء الجرحی في الغزو)’’جنگی مہم کے دوران میں عورتوں کا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا۔‘‘ (باب: 67) نیز اس حدیث میں ہے: عورتیں، مردوں کا علاج کر سکتی ہیں۔ عنوان کے دوسرے جز کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قیاس کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ جب عورتیں، مردوں کا علاج کر سکتی ہیں تو مرد حضرات بھی عورتوں کا علاج معالجہ کر سکتے ہیں لیکن اس میں دیکھنے اور ہاتھ لگانے کو صرف ضرورت تک محدود رکھا جائے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5466
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5679
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5679
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5679
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
اگر دونوں ایک دوسرے کے محرم ہیں تو کوئی اشکال نہیں۔ اگر اجنبی ہیں تو بوقت ضرورت پردے کی پابندی کرتے ہوئے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
حضرت ربیع بنت معوذ بن عفراء ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ غزوات میں شریک ہوا کرتی تھیں۔ ہم مجاہدین کو پانی پلاتیں، ان کی خدمت بجا لاتیں، نیزمقتولین اور زخمیوں کو مدینہ طیبہ لایا کرتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت میں علاج کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے حسب عادت اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں علاج معالجے کی صراحت ہے، چنانچہ فرماتی ہیں کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی بھی کرتی تھیں۔ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر، حدیث: 2882) (2) کتاب الجہاد میں امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب مداواة النساء الجرحی في الغزو)’’جنگی مہم کے دوران میں عورتوں کا زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا۔‘‘ (باب: 67) نیز اس حدیث میں ہے: عورتیں، مردوں کا علاج کر سکتی ہیں۔ عنوان کے دوسرے جز کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر قیاس کرتے ہوئے ثابت کیا ہے کہ جب عورتیں، مردوں کا علاج کر سکتی ہیں تو مرد حضرات بھی عورتوں کا علاج معالجہ کر سکتے ہیں لیکن اس میں دیکھنے اور ہاتھ لگانے کو صرف ضرورت تک محدود رکھا جائے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے خالد بن ذکوان نے اور ان سے ربیع بنت معوذ بن عفراءؓ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات میں شریک ہوتی تھیں اور مسلمان مجاہد کو پانی پلاتی، ان کی خدمت کرتی اور مقتولین اور مجروحین کو مدینہ منورہ لایا کرتی تھیں۔
حدیث حاشیہ:
باب کا مطلب اس سے نکلا کہ مستورات جنگ وجہاد میں شریک ہو کر مجروحین کی تیمار داری اور مرہم پٹی وغیرہ کی خدمات انجام دیتی تھیں پس باب کا مدعا ثابت ہو گیا مگر دریں حالات بھی اعضائے پردہ کا ستر ضروری ہے۔ مولانا وحید الزماں فرماتے ہیں مسلمانو! دیکھو تم وہ قوم ہو کہ تمہاری عورتیں بھی جہاد میں جایا کرتی تھیں، مجاہدین کے کام کاج خدمت وغیرہ علاج ومعالجہ میں نرس کا کام کیا کرتی تھیں، ضرورت ہوتی تو ہتھیار لے کر کافروں سے مقابلہ بھی کرتی تھیں حضرت خولہ بنت ازور رضی اللہ عنہا کی بہادری مشہور ہے کہ کس قدر نصاریٰ کو انہوں نے تیر اور تلوار سے مارا، شیر نیستان کی طرح حملہ کرتیں۔ حضرت صفیہ بنت عبدالمطلب گرز لے کر بنی قریظہ کے یہود کو مارنے کے لیے مستعد ہو گئیں یا اب تمہارے مردوں کا یہ حال ہے کہ توپ بندوق آواز سنتے ہی یا تلوار کی چمک دیکھتے ہی ان کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ شرعی پردہ صرف اس قدر ہے کہ عورت اپنے اعضاء جن کا چھپانا غیر محرم سے فرض ہے وہ چھپائے رکھے نہ یہ کہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ ترجمہ باب کا ایک جزو یعنی مرد عورت کی تیمار داری کرے گو حدیث میں بصراحت مذکور نہیں ہے لیکن دوسرے جزو پر قیاس کیا گیا ہے قسطلانی نے کہا عورت جب مرد کا علاج کرے تو اگر مرد محرم ہے توکوئی اشکال ہی نہیں ہے اگر غیر محرم ہے تو جب بھی اسے ضرورت کے وقت بقدر احتیاج چھونا یا دیکھنا درست ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Rubai bint Mu'adh bin Afra (RA) : We used to go for Military expeditions along with Allah's Apostle (ﷺ) and provide the people with water, serve them and bring the dead and the wounded back to Medina.