Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: To treat with the milk of camels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5685.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کچھ لوگ بیمار تھے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمیں قیام کے لیے جگہ دے دیں اور ہمارے کھانے کا بندوبست فرما دیں۔ پھر جو وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی آب وہوا خراب ہے جو ہمارے موافق نہیں تو آپ نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا بندوبست کر دیا اور فرمایا: ”اونٹنیوں کا دودھ پیو۔“ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے تو وہ انہیں پکڑ لائے۔ آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں۔ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا وہ اپنی زبان سے زمین چاٹتا تھا اور وہ اسی حالت میں مرگیا۔ (راوی حدیث) اسلام نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حجاج نے حضرت انس ؓ سے کہا: تم مجھ سے سخت ترین سزا بیان کرو جو نبی ﷺ نے کسی کو دی ہو تو انہوں نے یہی واقعہ بیان کیا۔ یہ بات حسن بصری پہنچی تو انہوں نے کہا: کاش! وہ یہ حدیث اس(حجاج) سے بیان نہ کرتے۔
تشریح:
(1) کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف بہت ظالم تھا۔ وہ ظلم کرنے میں تھوڑا سا سہارا لے کر سخت سے سخت ظلم کرتا تھا۔ حلال جانور کے دودھ میں شفا ہے۔ اگر کسی کا پیٹ بڑھ جائے تو اطباء علاج کے لیے اونٹنی کا دودھ تجویز کرتے ہیں۔ اس کے استعمال سے فاسد مواد خارج ہو کر پیٹ اپنے اعتدال پر آ جاتا ہے۔ ان بدبختوں کو بھی یہی عارضہ تھا۔ مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹوں کے باڑے میں بھیج دیا اور انہیں اونٹنیوں کا دودھ پینے کی تلقین کی، چنانچہ جب وہ صحت مند ہو گئے تو چرواہے کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا مُثلہ کیا، پھر اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہی سزا تجویز کی جو انہوں نے سرکاری چرواہے کے لیے روا رکھی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹنیوں کا دودھ بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5472
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5685
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5685
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5685
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کچھ لوگ بیمار تھے انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ہمیں قیام کے لیے جگہ دے دیں اور ہمارے کھانے کا بندوبست فرما دیں۔ پھر جو وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کی آب وہوا خراب ہے جو ہمارے موافق نہیں تو آپ نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا بندوبست کر دیا اور فرمایا: ”اونٹنیوں کا دودھ پیو۔“ جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے نبی ﷺ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور آپ کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ آپ ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی بھیجے تو وہ انہیں پکڑ لائے۔ آپ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیریں۔ میں نے ان میں سے ایک آدمی کو دیکھا وہ اپنی زبان سے زمین چاٹتا تھا اور وہ اسی حالت میں مرگیا۔ (راوی حدیث) اسلام نے کہا: مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ حجاج نے حضرت انس ؓ سے کہا: تم مجھ سے سخت ترین سزا بیان کرو جو نبی ﷺ نے کسی کو دی ہو تو انہوں نے یہی واقعہ بیان کیا۔ یہ بات حسن بصری پہنچی تو انہوں نے کہا: کاش! وہ یہ حدیث اس(حجاج) سے بیان نہ کرتے۔
حدیث حاشیہ:
(1) کہتے ہیں کہ حجاج بن یوسف بہت ظالم تھا۔ وہ ظلم کرنے میں تھوڑا سا سہارا لے کر سخت سے سخت ظلم کرتا تھا۔ حلال جانور کے دودھ میں شفا ہے۔ اگر کسی کا پیٹ بڑھ جائے تو اطباء علاج کے لیے اونٹنی کا دودھ تجویز کرتے ہیں۔ اس کے استعمال سے فاسد مواد خارج ہو کر پیٹ اپنے اعتدال پر آ جاتا ہے۔ ان بدبختوں کو بھی یہی عارضہ تھا۔ مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ان کے پیٹ بڑھ گئے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اونٹوں کے باڑے میں بھیج دیا اور انہیں اونٹنیوں کا دودھ پینے کی تلقین کی، چنانچہ جب وہ صحت مند ہو گئے تو چرواہے کو موت کے گھاٹ اتار کر اس کا مُثلہ کیا، پھر اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے وہی سزا تجویز کی جو انہوں نے سرکاری چرواہے کے لیے روا رکھی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹنیوں کا دودھ بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہاہم سے سلام بن مسکین ابو الروح بصری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ثابت نے بیان کیا ان سے حضرت انس ؓ نے کہ کچھ لوگوں کو بیماری تھی، انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمیں قیام کی جگہ عنایت فرما دیں اور ہمارے کھانے کا انتظام کر دیں پھر جب وہ لوگ تندرست ہو گئے تو انہوں نے کہا کہ مدینہ کی آب وہوا خراب ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مقام حرہ میں اونٹوں کے ساتھ ان کے قیام کا انتظام کر دیا اور فرمایا کہ ان کا دودھ پیو جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے آپ کے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کوہانک کر لے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کے پیچھے آدمی دوڑائے اور وہ پکڑ ے گئے (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا) آپ نے بھی ویسا ہی کیا ان کے ہاتھ پاؤں کٹوا دیئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دی۔ میں نے ان میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ زبان سے زمین چاٹتا تھا اور اسی حالت میں وہ مر گیا۔ سلام نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ حجاج نے حضرت انس ؓ سے کہا تم مجھ سے وہ سب سے سخت سزا بیان کرو جو رسول اللہ ﷺ نے کسی کو دی ہو تو انہوں نے یہی واقعہ بیان کیا جب حضرت امام حسن بصری تک یہ بات پہنچی توانہون نے کہا کاش وہ یہ حدیث حجاج سے نہ بیان کرتے۔
حدیث حاشیہ:
ان ڈاکوؤں نے اسلامی چرواہے کے ساتھ ایسا ظلم کیا تھا۔ لہٰذا العین بالعین کے تحت ان کے ساتھ یہی کیا گیا۔ حضرت حسن بصری نے حجاج کے متعلق یہ اس لیے کہا کہ وہ اپنے مظالم کے لیے ایسی سند بنانا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس کے مظالم صراحتاً ناجائز تھے یہ سخت ترین سزا ان کو قصاص میں دی گئی تھی۔ چرواہے کے ساتھ انہوں نے ایسا ہی کیا تھا لہٰذا ان کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : Some people were sick and they said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! Give us shelter and food. So when they became healthy they said, "The weather of Madinah is not suitable for us." So he sent them to Al-Harra with some she-camels of his and said, "Drink of their milk." But when they became healthy, they killed the shepherd of the Prophet (ﷺ) and drove away his camels. The Prophet (ﷺ) sent some people in their pursuit. Then he got their hands and feet cut and their eyes were branded with heated pieces of iron. I saw one of them licking the earth with his tongue till he died.