Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: To treat with the urine of camels)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5686.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند لوگوں نے (مدینہ طیبہ کی) آب وہوا کو ناموافق پایا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ آپ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں۔“ یعنی اونٹنیوں کے باڑے میں قیام رکھیں وہاں ان کا دودھ نوش کریں اور ان کا پیشاب بھی پئیں، چنانچہ وہ لوگ آپ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور انہوں نے وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب ان کے جسم صحت مند ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے، جب انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں قتادہ نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا: یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔
تشریح:
(1) یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور راہزن تھے، اگرچہ مدینہ طیبہ میں آ کر بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اصل خصلت میں کوئی انقلاب نہ آیا۔ موقع پاتے ہی انہوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ لے گئے، پھر انہیں وہی سزا دی گئی جو حدیث میں مذکور ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5473
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5686
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5686
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5686
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ مدینہ میں چند لوگوں نے (مدینہ طیبہ کی) آب وہوا کو ناموافق پایا تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: ”وہ آپ کے چرواہے کے پاس چلے جائیں۔“ یعنی اونٹنیوں کے باڑے میں قیام رکھیں وہاں ان کا دودھ نوش کریں اور ان کا پیشاب بھی پئیں، چنانچہ وہ لوگ آپ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور انہوں نے وہاں اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا۔ جب ان کے جسم صحت مند ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹ ہانک کر لے گئے۔ نبی ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے، جب انہیں پکڑ کر لایا گیا تو آپ کے حکم سے ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے گئے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیری گئیں قتادہ نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا: یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور راہزن تھے، اگرچہ مدینہ طیبہ میں آ کر بظاہر اسلام قبول کر لیا تھا لیکن اصل خصلت میں کوئی انقلاب نہ آیا۔ موقع پاتے ہی انہوں نے چرواہے کو قتل کیا اور اونٹ لے گئے، پھر انہیں وہی سزا دی گئی جو حدیث میں مذکور ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ اونٹوں کا پیشاب بطور دوا استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس ؓ نے کہ (عرینہ کے) کچھ لوگوں کو مدینہ منورہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی تھی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ وہ آپ کے چرواہے کے یہاں چلے جائیں یعنی اونٹوں میں اور ان کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ چنانچہ وہ لوگ آنحضرت ﷺ کے چرواہے کے پاس چلے گئے اور اونٹوں کا دودھ اور پیشاب پیا جب وہ تندرست ہو گئے تو انہوں نے چرواہے کو قتل کر دیا اور اونٹوں کوہانک کر لے گئے۔ آپ کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے انہیں تلاش کرنے کے لیے لوگوں کو بھیجا جب انہیں لایا گیا تو آنحضرت ﷺ کے حکم سے ان کے بھی ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیئے گئے اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی (جیسا کہ انہوں نے چرواہے کے ساتھ کیا تھا) قتادہ نے بیان کیا کہ مجھ سے محمد بن سیرین نے بیان کیا کہ یہ حدود کے نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے۔
حدیث حاشیہ:
یہ لوگ اصل میں ڈاکو اور رہزن تھے گو مدینہ میں آ کر مسلمان ہو گئے تھے مگر ان کی اصل خصلت کہاں جانے والی تھی۔ موقع پایا تو پھر ڈاکہ مارا خون کیا اونٹوں کو لے گئے اور بطور قصاص انہیں یہ سزا مذکور دی گئی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA) : The climate of Madinah did not suit some people, so the Prophet (ﷺ) ordered them to follow his shepherd, i.e. his camels, and drink their milk and urine (as a medicine). So they followed the shepherd that is the camels and drank their milk and urine till their bodies became healthy. Then they killed the shepherd and drove away the camels. When the news reached the Prophet (ﷺ) he sent some people in their pursuit. When they were brought, he cut their hands and feet and their eyes were branded with heated pieces of iron.