Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Al-Mann heals eye diseases)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5708.
حضرت سعید بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کھمبی من سے ہے اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔“ شعبہ نے کہا کہ مجھے حکم بن عتیبہ نے حسن عرنی سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے انہوں نے سعید بن زید ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ شعبہ نے کہا: جب حکم نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے تو میں عبدالمالک کی روایت کا انکار نہیں کرتا۔
تشریح:
مَن، ایک قدرتی خوراک تھی جو بنی اسرائیل کو حاصل ہوتی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ کھمبی کو من اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ بھی بلا مشقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ آج کل اسے خود بھی اُگایا جاتا ہے جو غذا میں استعمال ہوتی ہے۔ کھمبی کا پانی آنکھوں کی تکلیف کے لیے بہت مفید ہے، البتہ اطباء کا اس امر میں اختلاف ہے کہ اسے دوسری دوا کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا چاہیے، جیسے اثمد سرمے میں کھمبی کا پانی ملا کر اسے گوندھ لیا جائے پھر اسے پیس کر آنکھ میں لگایا جائے، یا اس کا پانی نکال کر صرف اسے استعمال کیا جائے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تین یا پانچ یا سات کھمبیاں لیں، پھر ان کا پانی نچوڑ کر ایک شیشی میں محفوظ کر لیا، میری ایک لونڈی آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہوئی، اس نے استعمال کیا تو وہ صحت یاب ہو گئی۔ (جامع الترمذي، الطب، حدیث: 2069)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5494
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5708
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5708
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5708
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
من، وہ حلوہ تھا جو بنی اسرائیل کو محنت کے بغیر ملتا تھا، اسی طرح کھمبی کھیتوں میں خود بخود اُگتی ہے اس پر کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ آئندہ حدیث میں اس کا بیان ہو گا کہ وہ آنکھوں کے لیے بہت مفید ہے۔ اور یہ کہ کھمبی من کی ایک قسم ہے۔ جب فرع کے لیے شفا کا حکم ہے تو اصل کے لیے تو بالاولیٰ ہو گا۔ بہرحال اس عنوان کے تحت کھمبی کا بیان ہو گا۔ اس کا عرق آنکھوں میں ڈالنا شفا اور نظر تیز کرنے کا باعث ہے۔ واللہ اعلم
حضرت سعید بن زید ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”کھمبی من سے ہے اس کا پانی آنکھوں کے لیے شفا ہے۔“ شعبہ نے کہا کہ مجھے حکم بن عتیبہ نے حسن عرنی سے، انہوں نے عمرو بن حریث سے انہوں نے سعید بن زید ؓ سے اور انہوں نے نبی ﷺ سے اس حدیث کو بیان کیا۔ شعبہ نے کہا: جب حکم نے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے تو میں عبدالمالک کی روایت کا انکار نہیں کرتا۔
حدیث حاشیہ:
مَن، ایک قدرتی خوراک تھی جو بنی اسرائیل کو حاصل ہوتی تھی جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ کھمبی کو من اس لیے کہا گیا ہے کہ یہ بھی بلا مشقت حاصل ہو جاتی ہے۔ اس کی کئی ایک قسمیں ہیں۔ آج کل اسے خود بھی اُگایا جاتا ہے جو غذا میں استعمال ہوتی ہے۔ کھمبی کا پانی آنکھوں کی تکلیف کے لیے بہت مفید ہے، البتہ اطباء کا اس امر میں اختلاف ہے کہ اسے دوسری دوا کے ساتھ ملا کر استعمال کرنا چاہیے، جیسے اثمد سرمے میں کھمبی کا پانی ملا کر اسے گوندھ لیا جائے پھر اسے پیس کر آنکھ میں لگایا جائے، یا اس کا پانی نکال کر صرف اسے استعمال کیا جائے جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تین یا پانچ یا سات کھمبیاں لیں، پھر ان کا پانی نچوڑ کر ایک شیشی میں محفوظ کر لیا، میری ایک لونڈی آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہوئی، اس نے استعمال کیا تو وہ صحت یاب ہو گئی۔ (جامع الترمذي، الطب، حدیث: 2069)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے کہا کہ میں نے عمرو بن حریث سے سنا، کہا کہ میں نے حضرت سعید بن زید ؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ کھنبی من میں سے ہے اور اس کا پانی آنکھ کے لیے شفا ہے۔ اسی سند سے شعبہ نے بیان کیا کہ مجھے حکم بن عتیبہ نے خبر دی، انہیں حسن بن عبداللہ عرنی نے، انہیں عمرو بن حریث نے اورانہیں سعید بن زید ؓ نے اور انہیں نبی کریم ﷺ نے یہی حدیث بیان کی، شعبہ نے کہا کہ جب حکم نے بھی مجھ سے یہ حدیث بیان کر دی تو پھر عبدالملک بن عمیر کی روایت پر مجھ کو اعتماد ہو گیا کیونکہ عبدالملک کا حافظہ آخر میں بگڑ گیا تھا شعبہ کو صرف اس کی روایت پر بھروسہ نہ رہا۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Said bin Zaid (RA) : I heard the Prophet (ﷺ) saying, "Truffles are like Manna (i.e. they grow naturally without man's care) and their water heals eye diseases."