باب: اگر نیند کا غلبہ ہو جائے تو عشاء سے پہلے بھی سونا درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Sleeping before the 'Isha prayer if (one is) over-whelmed by it (sleep))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
571.
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ایک رات نماز عشاء میں تاخیر فرمائی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہو کر نماز کے لیے کہا۔ بعد ازاں نبی ﷺ تشریف لائے۔ گویا میں اس وقت بھی آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ اپنے ہاتھ کو سر پر رکھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ’’اگر میں اپنی امت پر گراں خیال نہ کرتا تو یہ حکم دیتا کہ وہ اسی وقت یہ نماز پڑھا کریں۔‘‘ راوی کہتا ہے: میں نے حضرت عطاء سے بطورتحقیق پوچھا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے بیان کے مطابق اپنا ہاتھ اپنے سر پر کس طرح رکھا تھا؟ تو حضرت عطاء نے اپنی انگلیاں قدرے کشادہ کیں، پھر انگلیوں کے کنارے سر کے کونے پر رکھے، پھر انگلیوں کو سر پر اس طرح کھینچا کہ انگوٹھے نے کانوں کے اس کنارے کو مس کیا جو کنپٹی اور داڑھی کے کونے پر چہرے کے قریب ہے۔ نہ آپ اس میں کمی کر رہے تھے اور نہ مضبوط پکڑ رہے تھے، بس ایسے کر رہے تھے، جیسے میں کہہ رہا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز اسی وقت پڑھا کریں۔‘‘
تشریح:
(1) حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے پیش نظر بعض حضرات کا خیال ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سو گئے اور اس کے بعد وضوکرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس انداز سے زمین پر جم کر بیٹھنے کی حالت میں سوئے ہوں کہ خروج ریح کا امکان نہ ہو یا وہ لیٹ کر سوئے ہوں، پھر بیدار ہونے کہ بعد وضو کرکے نماز میں شمولیت اختیار کی ہو۔ اگرچہ روایت میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے، لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ وضو کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:67/2) (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ ہر دو روایات سے ثابت کیا ہے کہ نماز سے پہلے غیر اختیاری نیند مکروہ نہیں۔ اختیاری حالات میں نماز عشاء سے پہلے اس وقت سونا مکروہ ہے جب نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اگر کسی نے بیداری کا بندوبست کررکھا ہو تو اس کے لیے نماز سے پہلے سونا کسی صورت میں ناپسندیدہ نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز عشاء سے پہلے بعض اوقات سو جاتے اور اپنے اہل خانہ کو کہہ دیتے کہ مجھےنماز کے وقت بیدار کر دیا جائے۔ حدیث ابن عباس سے عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں تشریف لانے کے بعد سونے والوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آپ کی طرف سے انتظار کرنے کی تعریف کی گئی۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے کرتے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، البتہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ اور ان کے ساتھ تقریباً سولہ آدمی مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے منتطر تھے۔ (فتح الباري: 68/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
565
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
571
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
571
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
571
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے ایک رات نماز عشاء میں تاخیر فرمائی یہاں تک کہ لوگ سو گئے، پھر بیدار ہوئے، پھر سو گئے، پھر بیدار ہوئے۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے کھڑے ہو کر نماز کے لیے کہا۔ بعد ازاں نبی ﷺ تشریف لائے۔ گویا میں اس وقت بھی آپ کو دیکھ رہا ہوں کہ آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ اپنے ہاتھ کو سر پر رکھے ہوئے تھے، آپ نے فرمایا: ’’اگر میں اپنی امت پر گراں خیال نہ کرتا تو یہ حکم دیتا کہ وہ اسی وقت یہ نماز پڑھا کریں۔‘‘ راوی کہتا ہے: میں نے حضرت عطاء سے بطورتحقیق پوچھا کہ نبی ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے بیان کے مطابق اپنا ہاتھ اپنے سر پر کس طرح رکھا تھا؟ تو حضرت عطاء نے اپنی انگلیاں قدرے کشادہ کیں، پھر انگلیوں کے کنارے سر کے کونے پر رکھے، پھر انگلیوں کو سر پر اس طرح کھینچا کہ انگوٹھے نے کانوں کے اس کنارے کو مس کیا جو کنپٹی اور داڑھی کے کونے پر چہرے کے قریب ہے۔ نہ آپ اس میں کمی کر رہے تھے اور نہ مضبوط پکڑ رہے تھے، بس ایسے کر رہے تھے، جیسے میں کہہ رہا ہوں۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر میں اپنی امت پر گراں نہ سمجھتا تو انہیں حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز اسی وقت پڑھا کریں۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت ابن عمر ؓ کی روایت کے پیش نظر بعض حضرات کا خیال ہے کہ نیند سے وضو نہیں ٹوٹتا، کیونکہ حضرت ابن عمر ؓ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں سو گئے اور اس کے بعد وضوکرنے کا ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے وہ اس انداز سے زمین پر جم کر بیٹھنے کی حالت میں سوئے ہوں کہ خروج ریح کا امکان نہ ہو یا وہ لیٹ کر سوئے ہوں، پھر بیدار ہونے کہ بعد وضو کرکے نماز میں شمولیت اختیار کی ہو۔ اگرچہ روایت میں وضو کرنے کا ذکر نہیں ہے، لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ وہ وضو کے بغیر نماز نہیں پڑھتے تھے۔ (فتح الباري:67/2) (2) امام بخاری ؒ نے مذکورہ ہر دو روایات سے ثابت کیا ہے کہ نماز سے پہلے غیر اختیاری نیند مکروہ نہیں۔ اختیاری حالات میں نماز عشاء سے پہلے اس وقت سونا مکروہ ہے جب نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہو۔ اگر کسی نے بیداری کا بندوبست کررکھا ہو تو اس کے لیے نماز سے پہلے سونا کسی صورت میں ناپسندیدہ نہیں۔ جیسا کہ حضرت ابن عمر ؓ نماز عشاء سے پہلے بعض اوقات سو جاتے اور اپنے اہل خانہ کو کہہ دیتے کہ مجھےنماز کے وقت بیدار کر دیا جائے۔ حدیث ابن عباس سے عنوان اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں تشریف لانے کے بعد سونے والوں پر کوئی اعتراض نہیں کیا بلکہ آپ کی طرف سے انتظار کرنے کی تعریف کی گئی۔ واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ کا انتظار کرتے کرتے کچھ لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، البتہ حضرت عثمان بن مظعون ؓ اور ان کے ساتھ تقریباً سولہ آدمی مسجد میں رسول اللہ ﷺ کے منتطر تھے۔ (فتح الباري: 68/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
تو انھوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے سنا تھا کہ نبی کریم ﷺ نے ایک رات عشاء کی نماز میں دیر کی جس کے نتیجہ میں لوگ (مسجد ہی میں) سو گئے۔ پھر بیدار ہوئے پھر سو گئے‘ پھر بیدار ہوئے۔ آخر میں عمر بن خطاب ؓ اٹھے اور پکارا ’’نماز‘‘ عطاء نے کہا کہ ابن عباس ؓ نے بتلایا کہ اس کے بعد نبی ﷺ گھر سے تشریف لائے۔ وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے ہے جب کہ آپ ﷺ کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے اور آپ ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر میری امت کے لیے مشکل نہ ہو جاتی، تو میں انھیں حکم دیتا کہ عشاء کی نماز کو اسی وقت پڑھیں۔ میں نے عطاء سے مزید تحقیق چاہی کہ نبی کریم ﷺ کے ہاتھ سر پر رکھنے کی کیفیت کیا تھی؟ ابن عباس ؓ نے انھیں اس سلسلے میں کس طرح خبر دی تھی۔ اس پر حضرت عطاء نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں تھوڑی سی کھول دیں اور انھیں سر کے ایک کنارے پر رکھا پھر انھیں ملا کر یوں سر پر پھیرنے لگے کہ ان کا انگوٹھا کان کے اس کنارے سے جو چہرے سے قریب ہے اور داڑھی سے جا لگا۔ نہ سستی کی اور نہ جلدی، بلکہ اس طرح کیا اور کہا کہ پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر میری امت پر مشکل نہ گزرتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کریں۔
حدیث حاشیہ:
صحابہ کرام تاخیر کی وجہ سے نماز سے پہلے سو گئے۔ پس معلوم ہوا کہ ایسے وقت میں نماز عشاء سے پہلے بھی سونا جائز ہے۔ بشرطیکہ نماز عشاء باجماعت پڑھی جا سکے۔ جیسا کہ یہاں صحابہ کرام کا عمل منقول ہے، یہی باب کا مقصد ہے۔ لایقصر کا مطلب یہ کہ جیسے میں ہاتھ پھیر رہا ہوں، اسی طرح پھیرا نہ اس سے جلدی پھیرا نہ اس سے دیر میں۔ بعض نسخوں میں لفظ لایعصر ہے تو ترجمہ یوں ہوگا۔ نہ بالوں کو نچوڑتے نہ ہاتھ میں پکڑتے بلکہ اسی طرح کرتے۔ یعنی انگلیوں سے بالوں کو دبا کر پانی نکال رہے تھے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Ibn Juraij said, "I said to 'Ata', 'I heard Ibn 'Abbas (RA) saying: Once Allah's Apostle (ﷺ) delayed the 'Isha' prayer to such an extent that the people slept and got up and slept again and got up again. Then 'Umar bin Al-Khattab (RA) I, stood up and reminded the Prophet (ﷺ) I of the prayer.' 'Ata' said, 'Ibn 'Abbas (RA) said: The Prophet (ﷺ) came out as if I was looking at him at this time, and water was trickling from his head and he was putting his hand on his head and then said, 'Hadn't I thought it hard for my followers, I would have ordered them to pray ('Isha' prayer) at this time.' I asked 'Ata' for further information, how the Prophet (ﷺ) had kept his hand on his head as he was told by Ibn 'Abbas (RA). 'Ata' separated his fingers slightly and put their tips on the side of the head, brought the fingers downwards approximating them till the thumb touched the lobe of the ear at the side of the temple and the beard on the face. He neither slowed nor hurried in this action but he acted like that. The Prophet (ﷺ) said: "Hadn't I thought it hard for my followers I would have ordered them to pray at this time."