باب: اس بارے میں کہ عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Time of the 'Isha prayer is up to the middle of the night)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اور ابوبرزہ ؓصحابی نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔یہ اس حدیث کا ٹکڑاہے جو اوپر باب وقت العصر میں موصولاً گزر چکی ہے۔
572.
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے عشاء میں ایک مرتبہ نصف رات تک تاخیر فرمائی، پھر اسے ادا کیا اور فرمایا: ’’لوگوں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ہو، نماز ہی میں رہے ہو۔‘‘
تشریح:
(1) امام بخاری ؒ کے نزدیک عشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے۔ اور یہ واقت جواز ہے، وقت مختار نہیں۔ نصف رات کے بعد عشاء قضا ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور اس کے تحت بیان کی گئی احادیث میں کوئی ایسی چیز ذکر نہیں کی جس سے عشاء کے وقت کا صبح صادق تک ہونا معلوم ہو۔ سرزمین حجاز کے نامور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: عشاء کی نماز کا وقت غروب شفق سے نصف رات تک ہے۔ اس کا وقت طلوع فجر تک نہیں رہتا کیونکہ یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھیں۔‘‘ (الإسراء17: 78) اس میں باری تعالیٰ نے چار نمازوں کا ذکر کیا ہے: ظہروعصر، مغرب اور عشاء۔ اگر عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہوتا تو اس مقام پر طلوع فجرتک الفاظ استعمال کیے جاتے۔ پھر احادیث میں صراحت ہے کہ عشاء کا وقت نصف شب تک ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز عشاء کا وقت نصف رات تک ہے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1386(612)) اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نصف رات تک ادا کی جاسکتی ہے۔ (رسالة مواقيت الصلاة) (2) حدیث میں ہےکہ جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمھارا وقت نمازہی میں شمار ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت سے پہلے مسجد میں جاکر وہاں انتظار نماز میں بیٹھنے کی فضیلت ہے، لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک نماز سے فارغ ہو کر دوسری نماز کے انتظار کرنے میں بڑی فضیلت ہے۔ اس سے مراد صرف قلبی تعلق ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دےگا جس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:660) اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ ہر وقت اس کا خیال نماز اور مسجد کی طرف رہے۔ اگر مسجد اور نماز میں اس کا دل باہر کی چیزوں میں لگا ہوا ہے تو ایسی نماز اور مسجد میں انتظار بے سود ہے۔ اور اگر کسی کو دونوں باتیں میسر ہوں کہ قلب و جسم دونوں مسجد میں ہوں تو نور علی نور ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابن ابی مریم کے حوالے سے ایک تعلیق بھی ذکر کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حمیدہ الطویل کا سماع حضرت انس ؓ سے ثابت کیا جائے، کیونکہ اس نے پہلے"عن" کے صیغے سے حدیث بیان کی تھی۔ اس تعلیق کو ابو طاہر مخلص نے اپنے"فوائد" کے پہلے جز میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:70/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
566
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
572
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
572
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
572
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث:(547)پہلے موصولاً بیان ہوچکی ہے لیکن اس میں نصف رات تک تاخیر کی صراحت نہیں ہے،البتہ دیگر احادیث میں کم از کم ایک تہائی رات اور زیادہ سے زیادہ نصف تک تاخیر منقول ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔طلوع فجر تک کے جواز کےلیے کوئی صحیح اور صریح حدیث مروی نہیں۔(فتح الباری:2/69.)
اور ابوبرزہ ؓصحابی نے کہا کہ نبی کریم ﷺ اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔یہ اس حدیث کا ٹکڑاہے جو اوپر باب وقت العصر میں موصولاً گزر چکی ہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے عشاء میں ایک مرتبہ نصف رات تک تاخیر فرمائی، پھر اسے ادا کیا اور فرمایا: ’’لوگوں نے نماز پڑھ لی اور سو گئے لیکن تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے ہو، نماز ہی میں رہے ہو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) امام بخاری ؒ کے نزدیک عشاء کی نماز کا وقت نصف رات تک ہے۔ اور یہ واقت جواز ہے، وقت مختار نہیں۔ نصف رات کے بعد عشاء قضا ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے عنوان اور اس کے تحت بیان کی گئی احادیث میں کوئی ایسی چیز ذکر نہیں کی جس سے عشاء کے وقت کا صبح صادق تک ہونا معلوم ہو۔ سرزمین حجاز کے نامور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: عشاء کی نماز کا وقت غروب شفق سے نصف رات تک ہے۔ اس کا وقت طلوع فجر تک نہیں رہتا کیونکہ یہ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز پڑھیں۔‘‘ (الإسراء17: 78) اس میں باری تعالیٰ نے چار نمازوں کا ذکر کیا ہے: ظہروعصر، مغرب اور عشاء۔ اگر عشاء کا وقت طلوع فجر تک ہوتا تو اس مقام پر طلوع فجرتک الفاظ استعمال کیے جاتے۔ پھر احادیث میں صراحت ہے کہ عشاء کا وقت نصف شب تک ہے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’نماز عشاء کا وقت نصف رات تک ہے۔‘‘(صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1386(612)) اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ عشاء کی نماز نصف رات تک ادا کی جاسکتی ہے۔ (رسالة مواقيت الصلاة) (2) حدیث میں ہےکہ جب تک تم نماز کے انتظار میں رہو گے تمھارا وقت نمازہی میں شمار ہو گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت سے پہلے مسجد میں جاکر وہاں انتظار نماز میں بیٹھنے کی فضیلت ہے، لیکن بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہےکہ ایک نماز سے فارغ ہو کر دوسری نماز کے انتظار کرنے میں بڑی فضیلت ہے۔ اس سے مراد صرف قلبی تعلق ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے:’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس شخص کو اپنے عرش کے سائے تلے جگہ دےگا جس کا دل مسجد میں لٹکا ہوا ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الأذان، حدیث:660) اور مومن کی شان بھی یہی ہے کہ ہر وقت اس کا خیال نماز اور مسجد کی طرف رہے۔ اگر مسجد اور نماز میں اس کا دل باہر کی چیزوں میں لگا ہوا ہے تو ایسی نماز اور مسجد میں انتظار بے سود ہے۔ اور اگر کسی کو دونوں باتیں میسر ہوں کہ قلب و جسم دونوں مسجد میں ہوں تو نور علی نور ہے۔ (3) امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں ابن ابی مریم کے حوالے سے ایک تعلیق بھی ذکر کی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ حمیدہ الطویل کا سماع حضرت انس ؓ سے ثابت کیا جائے، کیونکہ اس نے پہلے"عن" کے صیغے سے حدیث بیان کی تھی۔ اس تعلیق کو ابو طاہر مخلص نے اپنے"فوائد" کے پہلے جز میں موصولاً بیان کیا ہے۔ (فتح الباري:70/2)
ترجمۃ الباب:
حضرت ابوبرزہ اسلمی ؓ کہتے ہیں: نبی ﷺ عشاء کی نماز تاخیر سے پڑھنا پسند کرتے تھے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے، انھوں نے حضرت انس ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ نے (ایک دن) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ (یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے (گویا سارے وقت) نماز ہی پڑھتے رہے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas (RA): The Prophet (ﷺ) delayed the 'lsha' prayer till midnight and then he offered the prayer and said, "The people prayed and slept but you have been in prayer as long as you have been waiting for it (the prayer)."