باب: زخموں کا خون روکنے کے لیے بو ریا جلا کر زخم پر لگانا
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: To burn a mat to stop bleeding)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5722.
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔
تشریح:
(1) حصیر، عربوں میں کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی تھی۔ راکھ کھجور کے پتوں کی ہو یا پٹ سن کے بورے کی یا سوتے کپڑے کی، خون بند کر دیتی ہے۔ اس سے خون کی رگیں بند کرنا مقصود تھا، انہیں بند کرنے سے خون خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ (2) راکھ کی یہ خصوصیت ہے کہ جب اسے زخم پر چپکا دیا جاتا ہے تو یہ خون بند کر دیتی ہے اور اس کے جاری ہونے کی جگہ کو بھی خشک کر دیتی ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب التداوي بالرماد) ’’راکھ سے علاج کرنا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ خون کو اس وقت دھویا جائے جب زخم گہرا نہ ہو لیکن جب زخم گہرا ہو تو اس میں پانی پڑ جانے سے نقصان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 215/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5504
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5722
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5722
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5722
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت سہل بن سعد ساعدی ؓ سے روایت ہے انہوں نےکہا کہ جب نبی ﷺ کے سر مبارک پر خود ٹوٹ گیا اور آپ کا چہرہ مبارک خون آلود ہو گیا، نیز سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ گئے تو حضرت علی بن ابی طالب ؓ اپنی ڈھال میں پانی بھر بھر کر لاتے تھے اور سیدہ فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب سیدہ فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک چٹائی جلا کر اس کی راکھ رسول اللہ ﷺ کے ذخموں پر لگائی تو خون رک گیا۔
حدیث حاشیہ:
(1) حصیر، عربوں میں کھجور کے پتوں سے بنائی جاتی تھی۔ راکھ کھجور کے پتوں کی ہو یا پٹ سن کے بورے کی یا سوتے کپڑے کی، خون بند کر دیتی ہے۔ اس سے خون کی رگیں بند کرنا مقصود تھا، انہیں بند کرنے سے خون خود بخود بند ہو جاتا ہے۔ (2) راکھ کی یہ خصوصیت ہے کہ جب اسے زخم پر چپکا دیا جاتا ہے تو یہ خون بند کر دیتی ہے اور اس کے جاری ہونے کی جگہ کو بھی خشک کر دیتی ہے، چنانچہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب التداوي بالرماد) ’’راکھ سے علاج کرنا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ پانی کے ساتھ خون کو اس وقت دھویا جائے جب زخم گہرا نہ ہو لیکن جب زخم گہرا ہو تو اس میں پانی پڑ جانے سے نقصان کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ (فتح الباري: 215/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو حازم نے بیان کیا، اور ان سے سہل بن سعد ساعدی ؓ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ کے سر پر (احد کے دن) خود ٹوٹ گيا آپ کا مبارک چہرہ خون آلود ہوگيا اور سامنے کے دانت ٹوٹ گئے تو حضرت علی ؓ ڈھال میں بھر بھر کر پانی لاتے تھے اور حضرت فاطمہ ؓ آپ کے چہرہ مبارک سے خون دھو رہی تھیں۔ پھر جب حضرت فاطمہ ؓ نے دیکھا کہ خون پانی سے بھی زیادہ آ رہا ہے تو انہوں نے ایک بوریا جلا کر رسول اللہ ﷺ کے زخموں پر لگایا اور اس سے خون رکا۔
حدیث حاشیہ:
خود لوہے کا سر کو ڈھانکنے والا کن ٹوپ یہ ٹوٹ کر چہرہ مبارک میں گھس گیا تھا اس وجہ سے چہرہ خون آلود ہو گیا تھا اس موقع کا ذکر ہے باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے یہ جنگ احد کا واقعہ ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Sahl bin Saud As-Sa'idi (RA) : When the helmet broke on the head of the Prophet (ﷺ) and his face became covered with blood and his incisor tooth broke (i.e. during the battle of Uhud), 'Ali used to bring water in his shield while Fatima was washing the blood off his face. When Fatima saw that the bleeding increased because of the water, she took a mat (of palm leaves), burnt it, and stuck it (the burnt ashes) on the wound of Allah's Apostle, whereupon the bleeding stopped.