باب: جہاں کی آب وہوا ناموافق ہو وہاں سے نکل کر دوسرے مقام پر جانا درست ہے
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Whoever went out of a land because of its climate and water)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5727.
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ سے چند لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام کے متعلق گفتگو کی، پھر کہا: اللہ کے رسول! ہم مویشی پالنے والے ہیں اور زراعت پیشہ یا کھجوروں والے نہیں ہیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ مدینہ سے باہر چلے جائیں وہاں ان کا دودھ اور پیشاب نوش کریں چنانچہ وہ لوگ باہر چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہوگئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے پھر حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ ہوہ اسی حالت میں مرگئے
تشریح:
(1) جس علاقے کی آب و ہوا موافق نہ ہو وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ لوگوں کو مدینہ طیبہ سے حرہ بھیج دیا تھا، لیکن وہ مرتد ہو کر جرائم پیشہ ہو گئے۔ انہوں نے ایسی حرکت کی کہ انہیں وہی سزا دی گئی جو ان کے مناسب تھی۔ (2) بہرحال عنوان اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا ناموافق ہونے کی وجہ سے باہر چلے جانے کا حکم دیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر طاعون وغیرہ کی وجہ سے آب و ہوا ناموافق ہو جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کسی دوسری جگہ جانا درست نہیں جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا لیکن اس کے بغیر آب و ہوا کے ناموافق ہونے سے کسی دوسری جگہ جانا منع نہیں ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 220/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5509
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5727
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5727
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5727
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ عکل اور عرینہ سے چند لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اسلام کے متعلق گفتگو کی، پھر کہا: اللہ کے رسول! ہم مویشی پالنے والے ہیں اور زراعت پیشہ یا کھجوروں والے نہیں ہیں مدینہ طیبہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آتی تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ ان اونٹوں کے ساتھ مدینہ سے باہر چلے جائیں وہاں ان کا دودھ اور پیشاب نوش کریں چنانچہ وہ لوگ باہر چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہوگئے انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے چرواہے کو قتل کردیا اور اونٹ لے کر بھاگ نکلے جب رسول اللہ ﷺ کو یہ خبر ملی تو آپ نے ان کے تعاقب میں چند آدمی روانہ کیے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئیں اور ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے گئے پھر حرہ کے کنارے انہیں چھوڑ دیا گیا حتیٰ کہ ہوہ اسی حالت میں مرگئے
حدیث حاشیہ:
(1) جس علاقے کی آب و ہوا موافق نہ ہو وہاں سے کسی دوسرے علاقے میں جانا جائز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ لوگوں کو مدینہ طیبہ سے حرہ بھیج دیا تھا، لیکن وہ مرتد ہو کر جرائم پیشہ ہو گئے۔ انہوں نے ایسی حرکت کی کہ انہیں وہی سزا دی گئی جو ان کے مناسب تھی۔ (2) بہرحال عنوان اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ کی آب و ہوا ناموافق ہونے کی وجہ سے باہر چلے جانے کا حکم دیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اگر طاعون وغیرہ کی وجہ سے آب و ہوا ناموافق ہو جائے تو راہ فرار اختیار کرتے ہوئے کسی دوسری جگہ جانا درست نہیں جیسا کہ آئندہ بیان ہو گا لیکن اس کے بغیر آب و ہوا کے ناموافق ہونے سے کسی دوسری جگہ جانا منع نہیں ہے۔ واللہ أعلم(فتح الباري: 220/10)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت انس بن مالک ؓ نے بیان کیا کہ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراسلام کے بارے میں گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! ہم مویشی والے ہیں ہم لوگ اہل مدینہ کی طرح کاشتکار نہیں ہیں۔ مدینہ کی آب وہوا انہیں موافق نہیں آئی تھی، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ نے ان کے لیے چند اونٹوں اور ایک چرواہے کا حکم دیا اور آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ ان اونٹوں کے ساتھ باہر چلے جائیں اوران کا دودھ اور پیشاب پئیں۔ وہ لوگ چلے گئے لیکن حرہ کے نزدیک پہنچ کر وہ اسلام سے مرتد ہو گئے اورآنحضرت ﷺ کے چرواہے کو قتل کر ڈالا اور اونٹوں کولے کر بھاگ پڑے جب آنحضرت ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے ان کی تلاش میں آدمی دوڑائے پھر آپ نے ان کے متعلق حکم دیا اور ان کی آنکھوں میں سلائی پھیر دی گئی، ان کے ہاتھ کاٹ دئے گئے اور حرہ کے کنارے انہیں چھوڑدیا گیا، وہ اسی حالت میں مر گئے۔
حدیث حاشیہ:
آب وہوا کی ناموافقت پر آ پ نے ان لوگوں کو مدینہ سے حرہ بھیج دیا تھا بعد میں وہ مرتد ہو کر ڈاکو بن گئے اور انہوں نے ایسی حرکت کی جن کی یہی سزا مناسب تھی جو ان کو دی گئی۔ حدیث سے باب کا مطلب ظاہر ہے حدیث اور باب میں مطابقت واضح ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مدینہ کی آب وہوا نا موافق آنے کی وجہ سے باہر جانے کا حکم دے دیا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Anas bin Malik (RA): Some people from the tribes of 'Ukl and 'Uraina came to Allah's Apostle (ﷺ) and embraced Islam and said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! We are owners of livestock and have never been farmers," and they found the climate of Madinah unsuitable for them. So Allah's Apostle (ﷺ) ordered that they be given some camels and a shepherd, and ordered them to go out with those camels and drink their milk and urine. So they set out, but when they reached a place called Al-Harra, they reverted to disbelief after their conversion to Islam, killed the shepherd and drove away the camels. When this news reached the Prophet (ﷺ) he sent in their pursuit (and they were caught and brought). The Prophet (ﷺ) ordered that their eyes be branded with heated iron bars and their hands be cut off, and they were left at Al-Harra till they died in that state.