Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Superiority of the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
573.
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ’’تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں کوئی دشواری یا اشتباہ نہیں ہو گا، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔‘‘
تشریح:
یہ روایت (554) پہلے گزرچکی ہے۔ وہاں الفاظ کا اختلاف نہیں تھا۔ اس روایت میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے لَا تُضَامُونَ کے الفاظ ذکر فرمائے۔ لاتضامون اگر "ضم" سے مشتق ہے تواس کے معنی ہوں گے: تم ایک دوسرے پر ازدحام (بھیڑ) نہیں کرو گے۔ اور اگر اس کا اشتتاق''ضيم'' سے ہے تو معنی یہ ہیں کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرو گے۔ اور اگر''تضاهون'' ہے تو اس کے معنی اشتباہ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص بغیر ازدحام، بغیر پریشانی اور بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے اپنی جگہ پر رہتے ہوئے رؤیت باری تعالیٰ سے شرف یاب ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے اگر ہوسکے تو طلوع وغروب سے پہلے کی نمازوں کی پابندی کرو۔ اس سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)) اس سے نماز فجر کی فضیلت معلوم ہوگئی کہ یہ اتنی اہم نماز ہے جس کی پابندی رؤیت باری تعالیٰ جیسی عظیم نعمت کے حصول میں مؤثر ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
568
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
573
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
573
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
573
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: ہم لوگ نبی ﷺ کے پاس تھے کہ آپ نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا، پھر فرمایا: ’’تم قیامت کے دن اپنے پروردگار کو اسی طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو، تمہیں کوئی دشواری یا اشتباہ نہیں ہو گا، لہٰذا اگر تم پابندی کر سکتے ہو تو طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے نمازوں سے مغلوب نہ ہو جاؤ، یعنی پابندی سے انہیں ادا کر سکو تو ضرور کرو۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو، یعنی نماز پڑھو۔‘‘
حدیث حاشیہ:
یہ روایت (554) پہلے گزرچکی ہے۔ وہاں الفاظ کا اختلاف نہیں تھا۔ اس روایت میں ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے لَا تُضَامُونَ کے الفاظ ذکر فرمائے۔ لاتضامون اگر "ضم" سے مشتق ہے تواس کے معنی ہوں گے: تم ایک دوسرے پر ازدحام (بھیڑ) نہیں کرو گے۔ اور اگر اس کا اشتتاق''ضيم'' سے ہے تو معنی یہ ہیں کہ تم ایک دوسرے پر ظلم نہیں کرو گے۔ اور اگر''تضاهون'' ہے تو اس کے معنی اشتباہ کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہر شخص بغیر ازدحام، بغیر پریشانی اور بغیر کسی قسم کے اشتباہ کے اپنی جگہ پر رہتے ہوئے رؤیت باری تعالیٰ سے شرف یاب ہوگا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اس شرف کو حاصل کرنے کے لیے اگر ہوسکے تو طلوع وغروب سے پہلے کی نمازوں کی پابندی کرو۔ اس سے مراد فجر اور عصر کی نماز ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں صراحت ہے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1434(633)) اس سے نماز فجر کی فضیلت معلوم ہوگئی کہ یہ اتنی اہم نماز ہے جس کی پابندی رؤیت باری تعالیٰ جیسی عظیم نعمت کے حصول میں مؤثر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے اسماعیل سے، کہا ہم سے قیس نے بیان کیا، کہا مجھ سے جریر بن عبداللہ نے بیان کیا، کہ ہم نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے آپ ﷺ نے چاند کی طرف نظر اٹھائی جو چودھویں رات کا تھا۔ پھر فرمایا کہ تم لوگ بے ٹوک اپنے رب کو اسی طرح دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو (اسے دیکھنے میں تم کو کسی قسم کی بھی مزاحمت نہ ہو گی) یا یہ فرمایا کہ تمہیں اس کے دیدار میں مطلق شبہ نہ ہو گا اس لیے اگر تم سے سورج کے طلوع اور غروب سے پہلے (فجر اور عصر) کی نمازوں کے پڑھنے میں کوتاہی نہ ہو سکے تو ایسا ضرور کرو۔ (کیونکہ ان ہی کے طفیل دیدار الٰہی نصیب ہو گا یا ان ہی وقتوں میں یہ رویت ملے گی) پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی ’’پس اپنے رب کے حمد کی تسبیح پڑھ سورج کے نکلنے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے۔ ‘‘ امام ابوعبداللہ بخاری ؒ نے کہا کہ ابن شہاب نے اسماعیل کے واسطہ سے جو قیس سے بواسطہ جریر (راوی ہیں) یہ زیادتی نقل کی کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: ’’ تم اپنے رب کو صاف دیکھو گے۔‘‘
حدیث حاشیہ:
جامع صغیر میں امام سیوطی ؒ فرماتے ہیں کہ عصر اورفجر کی تخصیص اس لیے کی گئی کہ دیدارِ الٰہی ان ہی وقتوں کے اندازے پر حاصل ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Jarir bin ' Abdullah (RA) : We were with the Prophet (ﷺ) on a full moon night. He looked at the moon and said, "You will certainly see your Lord as you see this moon, and there will be no trouble in seeing Him. So if you can avoid missing (through sleep, business, etc.) a prayer before the rising of the sun (Fajr) and before its setting ('Asr) you must do so. He (the Prophet) then recited the following verse: And celebrate the praises Of Your Lord before The rising of the sun And before (its) setting." (50.39)