باب: جو شخص طاعون میں صبر کر کے وہیں رہے گو ا س کو طاعون نہ ہو ، اس کی فضلیت کا بیان
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: The reward of a person who suffers from plague and remains patient)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5734.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بتایا: طاعون (اللہ کا) عذاب تھا وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا، پھر اللہ تعالٰی نے اس کا اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کررہے گا تو اس کو شہید کا سا ثواب ملے گا۔ نضر بن شمیل نے داود سے روایت کرنے میں حبان بن ہلال کی متابعت کی ہے
تشریح:
(1) طاعون کی وجہ سے اجروثواب کا حق دار بننے کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اسی مقام پر ٹھہرا رہے، وہاں سے بھاگ کر کسی دوسری جگہ نہ جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے، وہاں ٹھہرتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ اگر اس کا گمان ہو کہ یہاں سے نکلنے میں اسے نجات مل جائے گی تو اسے ثواب سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ طاعون سے وہاں مر جائے۔ اور اگر وہ ان صفات سے متصف ہے تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اگرچہ اسے طاعون کی وجہ سے موت نہ آئے۔ اس کے تحت تین صورتیں ہیں: ٭ ان صفات کا حامل ہو اور طاعون کی وجہ سے وہاں موت آ جائے۔ ٭ وہاں طاعون سے متاثر ہو لیکن اسے اس وجہ سے موت نہ آئے۔ ٭ وہ طاعون سے متاثر نہ ہو اور اس کے بغیر موت آ جائے۔ (2) بہرحال جو شخص صبر کرتے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایسے مقام سے نہ نکلے جہاں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور وہ طاعون کے مرض سے نہ مرے تو اسے شہید کے مثل ثواب ہو گا اور اگر وہ مر جائے تو وہ شہید کے حکم میں ہے۔ (فتح الباری: 10/238)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5516
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5734
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5734
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5734
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق سوال کیا تو اللہ کے نبی ﷺ نے انہیں بتایا: طاعون (اللہ کا) عذاب تھا وہ اسے جس پر چاہتا بھیج دیتا، پھر اللہ تعالٰی نے اس کا اہل ایمان کے لیے باعث رحمت بنا دیا۔ اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑا ہو اور یقین رکھتا ہو کہ جو کچھ اللہ تعالٰی نے اس کے لیے لکھ دیا ہے وہ اس کو ضرور پہنچ کررہے گا تو اس کو شہید کا سا ثواب ملے گا۔ نضر بن شمیل نے داود سے روایت کرنے میں حبان بن ہلال کی متابعت کی ہے
حدیث حاشیہ:
(1) طاعون کی وجہ سے اجروثواب کا حق دار بننے کے لیے دو شرطیں ہیں: ایک تو یہ ہے کہ وہ صبر و استقامت کے ساتھ اسی مقام پر ٹھہرا رہے، وہاں سے بھاگ کر کسی دوسری جگہ نہ جائے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر راضی رہے، وہاں ٹھہرتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ اگر اس کا گمان ہو کہ یہاں سے نکلنے میں اسے نجات مل جائے گی تو اسے ثواب سے محرومی کا سامنا کرنا پڑے گا، خواہ وہ طاعون سے وہاں مر جائے۔ اور اگر وہ ان صفات سے متصف ہے تو اسے شہید کا ثواب ملے گا اگرچہ اسے طاعون کی وجہ سے موت نہ آئے۔ اس کے تحت تین صورتیں ہیں: ٭ ان صفات کا حامل ہو اور طاعون کی وجہ سے وہاں موت آ جائے۔ ٭ وہاں طاعون سے متاثر ہو لیکن اسے اس وجہ سے موت نہ آئے۔ ٭ وہ طاعون سے متاثر نہ ہو اور اس کے بغیر موت آ جائے۔ (2) بہرحال جو شخص صبر کرتے اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایسے مقام سے نہ نکلے جہاں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی اور وہ طاعون کے مرض سے نہ مرے تو اسے شہید کے مثل ثواب ہو گا اور اگر وہ مر جائے تو وہ شہید کے حکم میں ہے۔ (فتح الباری: 10/238)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان نے خبردی، کہا ہم سے داؤد بن ابی الفرت نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے، ان سے یحییٰ بن عمر نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے خبر دی کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے طاعون کے متعلق پوچھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایک عذاب تھا اللہ تعالیٰ جس پر چاہتا اس پر اس کو بھیجتا پھراللہ تعالیٰ نے اسے مومنین (امت محمدیہ کے لیے) رحمت بنادیا اب کوئی بھی اللہ کا بندہ اگر صبر کے ساتھ اس شہر میں ٹھہرا رہے جہاں طاعون پھوٹ پڑی ہو اوریقین رکھتا ہے کہ جوکچھ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے لکھ دیا ہے اس کے سوا اس کو اور کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا اورپھر طاعون میں اس کا انتقال ہو جائے تواسے شہید جیسا ثواب ملے گا۔ حبان بن حلال کے ساتھ اس حدیث کو نضر بن شمیل نے بھی داؤد سے روایت کیا ہے۔
حدیث حاشیہ:
ابن ماجہ اور بیہقی کی روایت میں یوں ہے کہ طاعون اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی ملک میں بد کاری عام طورپر پھیل جاتی ہے۔ مولانا روم نے سچ کہا ہے ۔ وز زنا خیز د وبا اندر جہات۔ مسلمان کے لیے طاعون کی موت مرنا شہادت کادرجہ رکھتا ہے جیسا کہ حدیث ہذا میں ذکر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) that she asked Allah's Apostle (ﷺ) about plague, and Allah's Apostle (ﷺ) informed her saying, "Plague was a punishment which Allah used to send on whom He wished, but Allah made it a blessing for the believers. None (among the believers) remains patient in a land in which plague has broken out and considers that nothing will befall him except what Allah has ordained for him, but that Allah will grant him a reward similar to that of a martyr."