Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: Ar-Ruqa with the Qur'an and the Mu'awwidhat)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5735.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی مرض وفات میں خود پر معوذات پڑھ کر دم کرتے تھے۔ پھر جب آپ زیادہ بیمار ہوگئے تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کو دم کرتی تھی اور برکت کے لیے آپ کا دست مبارک ہی آپ کے جسد اطہر پر پھیرتی تھی(معمر نے کہا) میں نے امام زہری سے پوچھا: آپ ﷺ کس طرح دم کرتے تھے؟تو انہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ دم کرکے اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر انہیں اپنے چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے
تشریح:
(1) معوذات سے مراد سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس ہیں، انہیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک مارتے، پھر حتی المقدور تمام جسم پر پھیر لیتے۔ پہلے سر اور چہرے کا مسح کرتے، پھر جسم کے اگلے حصے پر پھیرتے، اس طرح تین دفعہ کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، فضائل القرآن، حدیث: 5017) (2) انسان کو اکثر تکالیف، جادو، ٹونہ، حسد و بغض اور شیطان کی شرارتوں اور اس کے وساوس کی وجہ سے آتی ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پر دم کرنے کے لیے معوذات کا انتخاب کرتے تھے کیونکہ ان میں ان تمام چیزوں کا سدباب ہے۔ (3) اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری قرآنی آیات یا ادعیہ ماثورہ سے دم کرنا جائز نہیں، البتہ ترجیح معوذات کو دی جائے کیونکہ ان میں ہر قسم کی تکلیف کا توڑ موجود ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات ہی میں معوذات سے دم کیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دم زندگی کے آخری وقت تک جاری رہا، منسوخ نہیں ہوا۔ واللہ اعلم(فتح الباری: 10/243)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5517
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5735
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5735
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5735
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے اب دوسرا طریقۂ علاج بیان کرنے کا آغاز کیا ہے۔ وہ قرآن اور مسنون دعاؤں سے دم جھاڑ کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بہت سے فائدہ مند اور نفع بخش دم سکھائے ہیں۔ جو قرآنی آیات اور دعاؤں پر مشتمل ہیں۔ اس کے طریقۂ کار اور اوقات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے دم جھاڑ میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں اور نہ آپ کے بتائے ہوئے وقت کے علاوہ کسی دوسرے وقت میں وہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں کمی بیشی کرنا اور اس کے اوقات میں تبدیلی کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ علم رکھنے کا دعویٰ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ وہ دم جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، البتہ کسی نے اس کا تجربہ کیا ہے اور اس کا فائدہ بھی ظاہر ہے، نیز وہ ایسے امور پر مشتمل نہیں جس سے شریعت نے بچنے کا حکم دیا ہے تو اس قسم کے دم کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جھاڑ پھونک سے علاج کرنا بھی جڑی بوٹیوں سے علاج کرنے کی طرح ہے۔ ان سے فائدہ اٹھانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر موقوف نہیں بلکہ دوسروں کے تجربے سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی ممنوعہ امر پر مشتمل نہ ہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابۂ کرام کے دم کو برقرار رکھا جو انہوں نے آپ کے علاوہ دوسروں سے سیکھا تھا جیسا کہ آپ نے آلِ حزم کو سانپ ڈسنے کے دم کی اجازت دی تھی۔ بلکہ آپ نے فرمایا تھا کہ تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ ضرور ایسا کرے۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5731 (2199)) حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم دور جاہلیت میں دم جھاڑ کیا کرتے تھے۔ ہم نے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس کے متعلق کیا رائے ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ دم جھاڑ مجھے پیش کرو۔" پھر آپ نے فرمایا: "ایسا دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جس میں شرک کی ملاوٹ نہ ہو۔" (سنن ابی داود، الطب، حدیث: 3886) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ ایسا دم کرنا جائز ہے جو شرک سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نے اپنے تجربے سے حاصل کیا ہو۔ اسی طرح شفاء بنت عبداللہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے جبکہ میں اس وقت سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، آپ نے فرمایا: "تم اسے پھوڑے پھنسیوں کا دم بھی سکھا دو جس طرح تم نے اسے لکھنا پڑھنا سکھایا ہے۔" (المستدرک للحاکم :4/56) لیکن شریعت میں دم جھاڑ کے متعلق کچھ قواعد و ضوابط ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ وہ دم جھاڑ کسی شرکیہ کلام پر مشتمل نہ ہو کیونکہ شرک حرام ہے اور حرام چیز سے علاج جائز نہیں۔ ٭ وہ جھاڑ پھونک جادو ٹونے کی قسم سے نہ ہو کیونکہ جادو کرنا بھی حرام ہے اور اس کا مرتکب کافر ہے۔ ٭ وہ دم جھاڑ ایسی عبارت پر مشتمل ہو جس کے معنی قابل فہم ہوں۔ اگر کسی دم جھاڑ کے معنی سمجھ میں نہ آئیں تو اس میں شرک کا شبہ ہو سکتا ہے اور جس چیز کے متعلق شرک کا گمان ہو اسے اختیار کرنا جائز نہیں۔ ٭ ایسی حالت میں دم نہ کیا جائے جس میں دم کرنا شرعاً حرام ہے، مثلاً: حالت جنابت میں، قبرستان یا بیت الخلاء میں یا اپنی شرمگاہ کو ننگا کر کے دم کرنا، ایسی حالت میں دم کرنا حرام ہے۔ ٭ وہ دم جھاڑ ایسی عبارت پر مشتمل نہ ہو جو شرعاً حرام ہے، مثلاً: گالی گلوچ اور لعنت وغیرہ کے الفاظ سے کیونکہ یہ چیزیں شرعاً حرام ہیں اور انہیں دم میں استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ ٭ دم کرنے والا یا جسے دم کیا جا رہا ہے وہ یہ گمان نہ رکھے کہ یہ دم ہی میرے لیے شفا دہندہ ہے اور اس سے میری تکلیف دور ہو گی، اسے چاہیے کہ وہ دم کرنے یا کروانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے شفایابی کی امید رکھے۔ ہمارے رجحان کے مطابق بہترین دم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے کلام یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سکھلائی ہوئی دعاؤں پر مشتمل ہو، نیز جائز قسم کا دم جھاڑ توکل کے منافی نہیں اور دم تکلیف واقع ہونے سے پہلے بھی کیا جا سکتا ہے اور تکلیف آ جانے کے بعد بھی جائز ہے لیکن لوگوں پر دم کرنے کے لیے خود کو فارغ کر لینا اور اسے ذریعۂ معاش بنانا کسی صورت میں جائز نہیں۔ اگرچہ دم کی اجرت لینا جائز ہے لیکن اسے بطور پیشہ اختیار کرنا سلف صالحین کے طریقے کے خلاف ہے۔ ایسا کرنے میں بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں جنہیں ہم آئندہ بیان کریں گے۔ دم جھاڑ کے علاوہ ہمارے ہاں علاج کا ایک طریقہ تعویذ گنڈا بھی ہے۔ اب ہم اس کے متعلق اپنی گزارشات پیش کرتے ہیں۔ عربی زبان میں تعویذ یا تعوذ کے معنی ہیں: پناہ چاہنا۔ قرآن و حدیث میں تعویذ یا تعوذ کے جو مشتقتات آئے ہیں وہ پناہ چاہنے اور معوذتین وغیرہ پڑھنے کے معنی میں مستعمل ہیں، تعویذ لٹکانے یا باندھنے کے معنی میں ہرگز استعمال نہیں ہوتے، البتہ اردو زبان میں تعویذ کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جو امراض یا آسیب یا نظربد سے محفوظ رہنے اور حصول برکت کے لیے باندھا یا لٹکایا جائے۔ یاد رہے کہ وہ منکے جو عرب لوگ اپنے بچوں کو نظر بد سے بچانے کے لیے پہناتے تھے اسے تمیمہ یا تمائم کہا جاتا ہے۔ اس معنی میں وہ کوڑیاں، پتھر، چھلے، انگوٹھیاں، لکڑی اور دھاگے وغیرہ سب چیزیں شامل ہیں جو جہلاء بغرض علاج پہنتے اور پہناتے ہیں۔ اس میں وہ تعویذ بھی آ جاتے ہیں جو کفریہ، شرکیہ اور غیر شرعی تحریروں پر مشتمل ہوں یا حروف ابجد یا ہندسے لکھے ہوں یا الٹی سیدھی لکیریں لگائی گئی ہوں۔ ان سب چیزوں کو تمیمہ کہا جانا مناسب ہے جس کی حدیث میں ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دم جھاڑ، گنڈے منکے اور جادو کی چیزیں یا تحریریں سب شرک ہیں۔" (سنن ابی داود، الطب، حدیث: 3883) لیکن ایسے تعویذ جو قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں پر مشتمل ہوں انہیں تمیمہ نہیں کہا جا سکتا، البتہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآنی آیات یا دعائیں لکھ کر لٹکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، حالانکہ اس دور میں کاغذ، قلم، سیاہی اور کاتب وغیرہ مہیا تھے اور بیماری میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتے یا لائے جاتے تھے مگر آپ نے کبھی کسی کو یہ طریقۂ علاج ارشاد نہیں فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دم کیا یا مختلف اذکار بتائے یا ان کے لیے کوئی مادی علاج تجویز فرمایا۔ آیات یا دعائیں لکھ کر لٹکانا بعد کی بات ہے، اسے بھی اسلاف پسند نہیں کرتے تھے، چنانچہ حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ سلف، قرآنی یا غیر قرآنی تعویذ کو برا کہتے تھے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ: 5/427) نیز مشہور ثقہ فقیہ حضرت مغیرہ بن مقسم ضبی کہتے ہیں: میں نے ابراہیم نخعی سے سوال کیا کہ میں بحالت بخار اپنے بازو پر یہ آیت: (يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ ﴿٦٩﴾) لکھ کر لٹکاتا ہوں، ابراہیم نخعی نے اسے مکروہ خیال کیا اور اسے اچھا نہ سمجھا۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ: 5/428) تعویذوں کے جواز میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے جسے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں خوف یا گھبراہٹ کے موقع پر یہ کلمات سکھائے تھے: (أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ ، وَعِقَابِهِ ، وَشَرِّ عِبَادِهِ ، وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ ، وَأَعُوذُ بِكَ رَبِّ أَنْ يَحْضُرُونَ) چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ اپنے سمجھدار بچوں کو یہ کلمات سکھا دیا کرتے تھے اور جو ناسمجھ ہوتے انہیں لکھ کر ان کے گلے میں لٹکا دیتے تھے۔ (سنن ابی داود، الطب، حدیث: 3893) اس کے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں دعائیہ کلمات حسن درجے کی ہیں، البتہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا عمل کہ وہ لکھ کر بچوں کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے، صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ (ضعیف سنن ابی داود، للالبانی، حدیث: 840) عرصہ ہوا کہ ہم نے استاذ محترم شیخ العرب والعجم ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی رحمہ اللہ کو اس کے متعلق خط لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جن بچوں کو یہ دعا یاد نہیں ہوتی تھی تو وہ ان کلمات کو پٹی پر لکھ کر ان کے گلے میں باندھ دیتے تھے تاکہ وہ سیکھیں اور یاد کریں جیسا کہ عام چھوٹے طلباء کے ہاتھ میں پٹیاں ہوتی ہیں تاکہ وہ سبق یاد کر سکیں، لہذا اسے مروجہ تعویذ کے جواز کے لیے پیش کرنا صحیح نہیں۔ بہرحال اس تعویذ گنڈے کے ذریعے سے علاج کرنے کے بے شمار مفاسد ہیں، ہم چند ایک ذکر کرتے ہیں: ٭ انسان تعویذ گنڈے کے چکر میں پھنس کر صحیح طریقۂ علاج کو چھوڑ دیتا ہے جو دم کے ذریعے سے علاج کرنا ہے۔ ٭ اس طریقۂ علاج کو اختیار کرنے سے قضاء و قدر پر ایمان ختم ہو جاتا ہے جو ایمان کا ایک عظیم رکن ہے۔ ٭ تعویذ گنڈا کرنے کرانے سے اللہ تعالیٰ پر ایمان کمزور ہو جاتا ہے، پھر تمام تر اعتماد اسی تعویذ گنڈے پر ہوتا ہے۔ ٭ تعویذ گنڈے کے ذریعے سے انسان شرک جیسے ظلم عظیم کا مرتکب ہو جاتا ہے جو ناقابل معافی جرم ہے۔ ٭ اس طریقۂ علاج کا عادی انسان توہم پرست بن جاتا ہے اور ہر چیز سے خوف کھاتا ہے۔ ٭ اس کے ذریعے سے شعبدہ باز قسم کے لوگ انسان کی عزت و آبرو اور مال و متاع پر ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمارا موقف یہ ہے کہ ہر مسلمان ایمان و یقین کے ساتھ مسنون اعمال اختیار کرے اور یقین رکھے کہ جلد یا بدیر شفا ہو جائے گی۔ اگر شفا نہ ہو تو اپنے کردار کا جائزہ لے کر دعا قبول نہ ہونے کا سبب معلوم کرے، پھر اسے دور کر کے صبر و استقامت سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ہاں اجر و ثواب اور بلندئ درجات کی امید رکھے۔ واللہ المستعان
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ اپنی مرض وفات میں خود پر معوذات پڑھ کر دم کرتے تھے۔ پھر جب آپ زیادہ بیمار ہوگئے تو میں یہ سورتیں پڑھ کر آپ کو دم کرتی تھی اور برکت کے لیے آپ کا دست مبارک ہی آپ کے جسد اطہر پر پھیرتی تھی(معمر نے کہا) میں نے امام زہری سے پوچھا: آپ ﷺ کس طرح دم کرتے تھے؟تو انہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ دم کرکے اپنے دونوں ہاتھوں پر پھونک مارتے، پھر انہیں اپنے چہرہ انور پر پھیر لیتے تھے
حدیث حاشیہ:
(1) معوذات سے مراد سورۂ اخلاص، سورۂ فلق اور سورۂ ناس ہیں، انہیں پڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونک مارتے، پھر حتی المقدور تمام جسم پر پھیر لیتے۔ پہلے سر اور چہرے کا مسح کرتے، پھر جسم کے اگلے حصے پر پھیرتے، اس طرح تین دفعہ کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، فضائل القرآن، حدیث: 5017) (2) انسان کو اکثر تکالیف، جادو، ٹونہ، حسد و بغض اور شیطان کی شرارتوں اور اس کے وساوس کی وجہ سے آتی ہیں، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پر دم کرنے کے لیے معوذات کا انتخاب کرتے تھے کیونکہ ان میں ان تمام چیزوں کا سدباب ہے۔ (3) اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری قرآنی آیات یا ادعیہ ماثورہ سے دم کرنا جائز نہیں، البتہ ترجیح معوذات کو دی جائے کیونکہ ان میں ہر قسم کی تکلیف کا توڑ موجود ہے۔ اس حدیث کا یہ مطلب بھی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات ہی میں معوذات سے دم کیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دم زندگی کے آخری وقت تک جاری رہا، منسوخ نہیں ہوا۔ واللہ اعلم(فتح الباری: 10/243)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں معمر نے، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ اپنے مرض الوفات میں اپنے اوپر معوذات (سورۃ الفلق والناس اور سورۃ الاخلاص) کا دم کیا کرتے تھے۔ پھرجب آپ کے لیے دشوار ہو گیا تو میں ان کادم آپ پر کیا کرتی تھی اور برکت کے لیے آنحضرت ﷺ کا ہاتھ آپ کے جسم مبارک پر بھی پھیر لیتی تھی۔ پھرمیں نے اس کے متعلق پوچھا کہ آنحضرت ﷺ کس طرح دم کرتے تھے، انہوں نے بتایا کہ اپنے ہاتھ پر دم کرکے ہاتھ کو چہرے پر پھیرا کرتے تھے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : During the Prophet's fatal illness, he used to recite the Mu'auwidhat (Surat An-Nas and Surat Al-Falaq) and then blow his breath over his body. When his illness was aggravated, I used to recite those two Suras and blow my breath over him and make him rub his body with his own hand for its blessings." (Ma'mar asked Az-Zuhri (RA) : How did the Prophet (ﷺ) use to blow? Az-Zuhri said: He used to blow on his hands and then passed them over his face.)