باب: رسول کریم ﷺ نے بیماری سے شفا کے لیے کیا دعا پڑھی ہے ؟
)
Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: The Ruqya of the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5746.
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دم کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: ”اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی لے لعاب دہن کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کی شفا یابی کا ذریعہ بنے گی۔“
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی شفایابی کے لیے اپنی انگلی پر لعاب دہن لگا کر مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3521) مدینہ طیبہ کی مٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن دونوں کو خاص شرف حاصل ہے، تاہم سنت پر عمل کرتے ہوئے جو شخص بھی اس طرح کرے گا ان شاءاللہ مریض کو شفا ہو گی۔ (2) تھوک اور مٹی تو ظاہری اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم ہے، ان میں شفا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے۔ مومن کا لعاب دہن اور مٹی خواہ کسی سرزمین کی ہو، شفا بخشی کا ایک حصہ ہیں۔ اس میں اصل تاثیر تو "بإذن ربنا" کے لفظ کی ہے۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ طب کی تحقیق کے مطابق تھوک کو مزاج کی تبدیلی میں بہت دخل ہے اور وطن کی مٹی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر کے لیے عجیب اثر رکھتی ہے۔ اہل طب کہتے ہیں کہ مسافر آدمی اپنی سرزمین کی مٹی ساتھ رکھتے، جب اسے کسی ناموافق پانی سے واسطہ پڑے تو تھوڑی سی مٹی مشکیزے میں ڈال دے تاکہ وہاں کے منفی اثرات سے محفوط رہے۔ دراصل جھاڑ پھونک میں عجیب اثرات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت تک پہنچنے سے عقل قاصر ہے۔ (فتح الباری: 10/257)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5528
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5746
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5746
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5746
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
"رقية النبي" کے دو مفہوم ہیں: پہلا یہ کہ خود آپ کا دم پڑھنا جیسا کہ آئندہ احادیث میں بیان ہو گا۔ اس صورت میں رقیہ کی اضافت اپنے فاعل کی طرف ہو گی۔ دوسرا یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر دم کرنا جیسا کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے آپ پر دم کیا تھا۔ (صحیح مسلم، السلام، حدیث: 5700 (2186)) اس صورت میں رقیہ کی اضافت اپنے مفعول کی طرف ہو گی۔ (فتح الباری: 10/255)
سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ دم کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: ”اللہ کے نام کے ساتھ ہماری زمین کی مٹی، ہم میں سے کسی لے لعاب دہن کے ساتھ مل کر ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کی شفا یابی کا ذریعہ بنے گی۔“
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریض کی شفایابی کے لیے اپنی انگلی پر لعاب دہن لگا کر مذکورہ دعا پڑھتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ، الطب، حدیث: 3521) مدینہ طیبہ کی مٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب دہن دونوں کو خاص شرف حاصل ہے، تاہم سنت پر عمل کرتے ہوئے جو شخص بھی اس طرح کرے گا ان شاءاللہ مریض کو شفا ہو گی۔ (2) تھوک اور مٹی تو ظاہری اسباب ہیں جنہیں اختیار کرنے کا حکم ہے، ان میں شفا پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے۔ مومن کا لعاب دہن اور مٹی خواہ کسی سرزمین کی ہو، شفا بخشی کا ایک حصہ ہیں۔ اس میں اصل تاثیر تو "بإذن ربنا" کے لفظ کی ہے۔ قاضی بیضاوی لکھتے ہیں کہ طب کی تحقیق کے مطابق تھوک کو مزاج کی تبدیلی میں بہت دخل ہے اور وطن کی مٹی مزاج کی حفاظت اور دفع ضرر کے لیے عجیب اثر رکھتی ہے۔ اہل طب کہتے ہیں کہ مسافر آدمی اپنی سرزمین کی مٹی ساتھ رکھتے، جب اسے کسی ناموافق پانی سے واسطہ پڑے تو تھوڑی سی مٹی مشکیزے میں ڈال دے تاکہ وہاں کے منفی اثرات سے محفوط رہے۔ دراصل جھاڑ پھونک میں عجیب اثرات ہوتے ہیں، ان کی حقیقت تک پہنچنے سے عقل قاصر ہے۔ (فتح الباری: 10/257)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن عیینہ نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن سعید نے، انہیں عمرہ نے اوران سے حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ دم کرتے وقت یہ دعاپڑھا کرتے تھے ”ہماری زمین کی مٹی اور ہمارا بعض تھوک ہمارے رب کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا ہو۔“
حدیث حاشیہ:
نووی نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تھوک کلمے کی انگلی پر لگا کر اس کو زمین پر رکھتے اوریہ دعا پڑھتے پھر وہ مٹی زخم یا درد کے مقام پر لگواتے اللہ کے حکم سے شفا ہوجاتی تھی۔ حافظ صاحب فرماتے ہیں وان ھذ ا من باب التبرک باسماءاللہ تعالیٰ واثار رسولہ واما وضع الاصبع بالارض فلعلہ خاصیتہ فی ذالک او بحکمۃ اخفاءآثار القدرۃ بمباشرۃ الاسباب المعتاد (فتح) یعنی یہ اللہ پاک کے مبارک ناموں کے ساتھ برکت حاصل کرنا اوراس کے رسول کے آثار کے ساتھ اس پر انگلی رکھنا پس یہ شاید اس کی خاصیت کی وجہ سے ہو یا آثار قدرت کی کوئی پوشیدہ حکمت اس میں جو اسباب ظاہری کے ساتھ میل رکھتی ہو آثار رسول سے وہ انگلی مراد ہے جو آپ زمین پررکھ کر مٹی لگا کر دعا پڑھتے تھے۔ بناوٹی آثار مرادنہیں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) used to read in his Ruqya, "In the Name of Allah" The earth of our land and the saliva of some of us cure our patient with the permission of our Lord." with a slight shower of saliva) while treating with a Ruqya.