Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Time of the Fajr (early morning) prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
576.
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہےکہ نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے ایک دفعہ سحری کھائی، جب سحری سے فارغ ہو گئے تو نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے تک کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جتنے میں ایک انسان پچاس آیات پڑھ سکے۔
تشریح:
(1) ان دونوں روایات کامضمون تقریبا ایک ہے، یعنی ان میں نماز اور سحری کا وقفہ بیان کیا گیا ہے کہ جتنے عرصے میں پچاس یا ساٹھ آیات کی تلاوت کی جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سحری اور نماز کے درمیان بہت کم وقفہ تھا اور سحری سے فراغت کے بعد جلد ہی نماز کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کایہ موقف ہے کہ نماز فجر صبح صادق کے بعد اندھیرے میں شروع کردی جائے۔ بعض احادیث میں اس کی صراحت ہے، جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز، صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے تھے، حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں سکتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1393(614)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’فجر دوطرح کی ہوتی ہے:ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام اور نماز ادا کرنا جائز ہے اور دوسری وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام لیکن کھانا مباح ہے۔‘‘(المستدرك للحاکم:191/1) حضرت جابر ؓ کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ وہ صبح جو بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا مباح ہوتا ہے اور وہ صبح جو آسمان کےکناروں میں پھیل جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا مباح اور کھانا حرام ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:191/1) (2) حضرت انس ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سحری میں شریک نہیں تھے۔ ایک تفصیلی رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا:’’میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، کھانے وغیرہ کا بندوبست کرو۔‘‘چنانچہ میں کھجور اور پانی لےکر حاضر خدمت ہوا، پھر آپ نے فرمایا:’’ کوئی آدمی تلاش کرو جو میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے۔‘‘تو میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوبلالایا،وہ آئے اور سحری میں شریک ہوگئے، فراغت کے بعد آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر نماز فجر کےلیے کھڑے ہوگئے۔ (فتح الباري:72/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
572
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
576
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
576
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
576
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت انس بن مالک ؓ ہی سے روایت ہےکہ نبی ﷺ اور حضرت زید بن ثابت ؓ نے ایک دفعہ سحری کھائی، جب سحری سے فارغ ہو گئے تو نبی ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے حضرت انس ؓ سے دریافت کیا: سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے تک کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ جتنے میں ایک انسان پچاس آیات پڑھ سکے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ان دونوں روایات کامضمون تقریبا ایک ہے، یعنی ان میں نماز اور سحری کا وقفہ بیان کیا گیا ہے کہ جتنے عرصے میں پچاس یا ساٹھ آیات کی تلاوت کی جاسکے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سحری اور نماز کے درمیان بہت کم وقفہ تھا اور سحری سے فراغت کے بعد جلد ہی نماز کےلیے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ان احادیث کے پیش نظر امام بخاری ؒ کایہ موقف ہے کہ نماز فجر صبح صادق کے بعد اندھیرے میں شروع کردی جائے۔ بعض احادیث میں اس کی صراحت ہے، جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز، صبح صادق طلوع ہوتے ہی شروع فرما دیتے تھے، حتی کہ اندھیرے کی وجہ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے کو پہچان بھی نہیں سکتے تھے۔ (صحیح مسلم، المساجد، حدیث:1393(614)) حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’فجر دوطرح کی ہوتی ہے:ایک وہ فجر جس میں کھانا حرام اور نماز ادا کرنا جائز ہے اور دوسری وہ فجر جس میں نماز پڑھنا حرام لیکن کھانا مباح ہے۔‘‘(المستدرك للحاکم:191/1) حضرت جابر ؓ کی روایت میں مزید وضاحت ہے کہ وہ صبح جو بھیڑیے کی دم کی طرح اونچی چلی جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا حرام اور کھانا مباح ہوتا ہے اور وہ صبح جو آسمان کےکناروں میں پھیل جاتی ہے، اس میں نماز پڑھنا مباح اور کھانا حرام ہوتا ہے۔ (المستدرك للحاکم:191/1) (2) حضرت انس ؓ رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ سحری میں شریک نہیں تھے۔ ایک تفصیلی رویت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت انس ؓ سے فرمایا:’’میں روزہ رکھنا چاہتا ہوں، کھانے وغیرہ کا بندوبست کرو۔‘‘چنانچہ میں کھجور اور پانی لےکر حاضر خدمت ہوا، پھر آپ نے فرمایا:’’ کوئی آدمی تلاش کرو جو میرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے۔‘‘تو میں حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کوبلالایا،وہ آئے اور سحری میں شریک ہوگئے، فراغت کے بعد آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر نماز فجر کےلیے کھڑے ہوگئے۔ (فتح الباري:72/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے حسن بن صباح نے یہ حدیث بیان کی، انھوں نے روح بن عبادہ سے سنا، انھوں نے کہا ہم سے سعید نے بیان کیا، انھوں نے قتادہ سے روایت کیا، انھوں نے انس بن مالک ؓ سے کہ نبی کریم ﷺ اور زید بن ثابت ؓ نے سحری کھائی، پھر جب وہ سحری کھا کر فارغ ہوئے تو نماز کے لیے اٹھے اور نماز پڑھی۔ ہم نے انس ؓ سے پوچھا کہ آپ کی سحری سے فراغت اور نماز کی ابتداء میں کتنا فاصلہ تھا؟ انھوں نے فرمایا کہ اتنا کہ ایک شخص پچاس آیتیں پڑھ سکے۔
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Qatada (RA): Anas bin Malik (RA) said, "The Prophet (ﷺ) and Zaid bin Thabit took the 'Suhur' together and after finishing the meal, the Prophet (ﷺ) stood up and prayed (Fajr prayer)." I asked Anas (RA), "How long was the interval between finishing their 'Suhur' and starting the prayer?" He replied, "The interval between the two was just sufficient to recite fifty 'Ayat." (Verses of the Qur'an)."