Sahi-Bukhari:
Medicine
(Chapter: The poison given to the Prophet (saws))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس قصہ کو عروہ نے حضرت عائشہؓ سے بیان کیا ، انہوں نے بنی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے ۔
5777.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو ایک جگہ جمع کرو۔“ چنانچہ انہیں آپ کے پاس جمع کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے ابو القاسم! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارا باپ فلاں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم جھوٹ کہتے ہو، بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔“ انہوں نے جواب دیا: آپ نے سچ کہا اور درست فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: دوزخ والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: کچھ دنوں کے لیے ہم دوزخ میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے۔ اللہ کی قسم! ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہیں لیں گے۔“ آپ نے پھر ان سے دریافت فرمایا: ”اگر تم سے ایک بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ گے ؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے بکری میں زہر ملایا تھا؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ آپ نے فرمایا: تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر نبی ہیں تو آپ کو یہ زہر نقصان نہیں دے گا۔
تشریح:
(1) یہودیوں کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر کے متعلق بذریعۂ وحی مطلع کر دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا گوشت چکھ لیا تھا جس کا اثر آخر دم تک رہا جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4428) (2) بکری کا زہر آلود گوشت پیش کرنے والی سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث تھی۔ اس نے کہا: آپ نے میرے باپ، خاوند، چچا اور بھائی کو قتل کیا ہے اور میری قوم کو بہت نقصان سے دوچار کیا، اس لیے میں نے چاہا کہ اپنے غصے کی آگ بجھاؤں۔ اگر آپ سچے رسول ہیں تو گوشت بول کر آپ سے کہہ دے گا اور اگر آپ دنیا دار بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس وقت بشر بن براء رضی اللہ عنہ تھے جو موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ (فتح الباري: 303/10) (3) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ زہر کا اثر انداز ہونا بھی متعدی بیماری کی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بداثرات سے محفوظ رہے اور آپ کے صحابی حضرت بشر بن براء رضی اللہ عنہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5559
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5777
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5777
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5777
تمہید کتاب
عربی زبان میں طب کے معنی جسمانی و ذہنی علاج کے ہیں۔ جب انسان کھانے پینے میں بے احتیاطی کی وجہ سے بیمار ہو جاتا ہے تو شریعت اسلامیہ نے علاج معالجے کو مشروع قرار دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "اللہ کے بندو! دوا دارو کیا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موت اور بڑھاپے کے علاوہ ہر بیماری کی دوا پیدا کی ہے۔" (مسند احمد: 4/278) لہذا جب کوئی شخص بیمار ہو جائے تو علاج کروانا سنت ہے۔ ایسا کرنا توکل کے خلاف نہیں۔ جب بیماری کے مطابق مریض کو دوا مل جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے صحت یاب ہو جاتا ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: "ہر بیماری کی دوا ہے۔ جب بیماری کے موافق دوا مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی مشئیت سے شفا کا باعث بن جاتی ہے۔" (صحیح مسلم، الطب، حدیث: 5741 (2204)) انسانی صحت کے حوالے سے مندرجہ ذیل تین اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیے، بطور اشارہ قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے: ٭ صحت کی حفاظت: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "جو شخص بیمار ہو یا مسافر تو (اس کے لیے) روزوں کی گنتی دوسرے دنوں سے پوری کرنا ہے۔" (البقرۃ: 2/185) بیماری میں روزہ رکھنے سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے، نیز سفر تھکاوٹ اور انسانی صحت کے لیے خطرے کا سبب بن سکتا ہے، اس لیے ان دونوں حالتوں میں روزہ چھوڑنے کی اجازت دی گئی تاکہ انسانی صحت کی حفاظت کو ممکن بنایا جا سکے۔ ٭ نقصان دہ چیزوں سے پرہیز: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "تم اپنی جانوں کو ہلاک مت کرو۔" (النساء: 4/29) اس آیت کریمہ سے سخت سردی میں تیمم کا جواز ثابت کیا گیا ہے۔ چونکہ سخت سردی میں پانی کا استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے، اس لیے تیمم کی اجازت دی گئی ہے۔ ٭ فاسد مادوں کا اخراج: ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اگر احرام والے شخص کے سر میں تکلیف ہو تو وہ (سر منڈوا کر) فدیہ دے دے۔" (البقرۃ: 2/196) اس آیت کریمہ میں احرام والے شخص کو بوقت تکلیف سر منڈوانے کی اجازت دی گئی ہے تاکہ فاسد مادوں سے نجات حاصل ہو سکے جو اس کی صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور علاج معالجے کے سلسلے میں کچھ ایسے اصولوں کی نشاندہی کی ہے کہ اگر انسان ان پر عمل کرے تو صحت مند و توانا رہے۔ وہ یہ ہیں: ٭ انسان کو اپنی کمر سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں۔ اگر زیادہ ہی کھانا ہو تو پیٹ کا ایک حصہ کھانے کے لیے، ایک پینے کے لیے اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لیے رکھ لے۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات دو ایسی چیزیں ملا کر کھاتے جو ایک دوسرے کے لیے "مصلح" ہوتیں، چنانچہ حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ککڑی اور تازہ کھجور ملا کر کھایا کرتے تھے۔ (صحیح البخاری، الاطعمۃ، حدیث: 5447)ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تربوز اور تازہ کھجور ملا کر کھاتے اور فرماتے: "ہم اس کھجور کی گرمی کا اس تربوز کی ٹھنڈک سے اور اس کی ٹھنڈک کا اس کی گرمی سے توڑ کرتے ہیں۔" (سنن ابی داود، الاطعمہ، حدیث: 3836) ٹھنڈے پانی میں تازہ گرم گرم دودھ، اسی طرح تازہ گرم گرم دودھ میں ٹھنڈا پانی ملا کر پینا بھی اسی قبیل سے تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فن طبابت میں بڑی ماہر تھیں۔ (مسند احمد: 6/67) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دبلی پتلی تھیں۔ انہوں نے اپنا دبلا پن دور کرنے کے لیے تازہ کھجوروں کے ساتھ ککڑی کھانا شروع کی تو انتہائی مناسب انداز میں فربہ ہو گئیں۔ (سنن ابن ماجہ، الاطعمہ، حدیث: 3324) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند ایسی ادویات کی نشاندہی بھی کی ہے جو بہت سی بیماریوں کا علاج ہیں، البتہ ان کے استعمال کے لیے مریض کی طبعی حالت کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ان میں ایک تو شہد ہے جس کے شفا ہونے کی قرآن کریم نے بھی گواہی دی ہے۔ (النحل: 16/69) دوسرے کلونجی جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے علاوہ ہر بیماری کے لیے شفا کہا ہے۔ (صحیح البخاری، الطب، حدیث: 5688) تیسرے زمزم کا پانی ہے جس کے متعلق ارشاد نبوی ہے: "اسے جس مقصد اور نیت سے پیا جائے یہ اسی کے لیے مؤثر ہو جاتا ہے۔" (سنن ابن ماجہ، المناسک، حدیث: 3062) پھر علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے: جڑی بوٹیوں کے ذریعے سے اور دم جھاڑے کے ساتھ۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت دونوں قسم کے علاج پر مشتمل احادیث کا انتخاب کیا ہے۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک سو اٹھارہ (118) مرفوع احادیث پیش کی ہیں۔ اٹھارہ (18) معلق اور باقی سو (100) احادیث متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ان میں پچاسی (85) مکرر اور تینتیس (33) خالص ہیں۔ مرفوع احادیث کے علاوہ انہوں نے مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین سے مروی سولہ (16) آثار بھی پیش کیے ہیں۔ ان تمام احادیث و آثار پر انہوں نے چھوٹے چھوٹے اٹھاون (58) عنوان قائم کیے ہیں۔ واضح رہے کہ علاج و معالجہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن حقائق کی نشاندہی کی تھی آج طب جدید اس کی تائید کر رہی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان حقائق کو مغربی تائید کے بغیر ہی تسلیم کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ طب نبوی کے مطابق اپنی بیماریوں کا علاج کرنے کی توفیق دے اور ہمیں صحت و سلامتی سے ہمکنار کرے تاکہ ہم اس کے دین حنیف کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکیں۔ آمین یا رب العالمین
تمہید باب
امام بخاری رحمہ اللہ نے خود ہی حضرت عروہ کی روایت کو بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض وفات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "اے عائشہ! میں اس زہریلے کھانے کا درد اب محسوس کرتا ہوں، گویا میری رگ جان اس زہر کی وجہ سے کٹ رہی ہے۔" (صحیح البخاری، المغازی، حدیث: 4428)
اس قصہ کو عروہ نے حضرت عائشہؓ سے بیان کیا ، انہوں نے بنی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری بطور ہدیہ پیش کی گئی جس میں زہر بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو ایک جگہ جمع کرو۔“ چنانچہ انہیں آپ کے پاس جمع کیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تم سے چند باتیں پوچھنا چاہتا ہوں، کیا تم مجھے صحیح صحیح جواب دو گے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اے ابو القاسم! رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تمہارا باپ کون ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہمارا باپ فلاں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم جھوٹ کہتے ہو، بلکہ تمہارا باپ فلاں ہے۔“ انہوں نے جواب دیا: آپ نے سچ کہا اور درست فرمایا۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں تو مجھے سچ سچ بتاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں، اے ابوالقاسم! اگر ہم جھوٹ بولیں گے تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ آپ نے ہمارے باپ کے متعلق ہمارا جھوٹ پکڑ لیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: دوزخ والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: کچھ دنوں کے لیے ہم دوزخ میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: ”تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے۔ اللہ کی قسم! ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہیں لیں گے۔“ آپ نے پھر ان سے دریافت فرمایا: ”اگر تم سے ایک بات پوچھوں تو کیا تم مجھے صحیح صحیح بتاؤ گے ؟“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم نے بکری میں زہر ملایا تھا؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ آپ نے فرمایا: تم نے یہ حرکت کیوں کی؟ انہوں نے کہا: ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہیں تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگر نبی ہیں تو آپ کو یہ زہر نقصان نہیں دے گا۔
حدیث حاشیہ:
(1) یہودیوں کا یہ خیال صحیح ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر کے متعلق بذریعۂ وحی مطلع کر دیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑا سا گوشت چکھ لیا تھا جس کا اثر آخر دم تک رہا جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ایک حدیث میں بیان ہوا ہے۔ (صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4428) (2) بکری کا زہر آلود گوشت پیش کرنے والی سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث تھی۔ اس نے کہا: آپ نے میرے باپ، خاوند، چچا اور بھائی کو قتل کیا ہے اور میری قوم کو بہت نقصان سے دوچار کیا، اس لیے میں نے چاہا کہ اپنے غصے کی آگ بجھاؤں۔ اگر آپ سچے رسول ہیں تو گوشت بول کر آپ سے کہہ دے گا اور اگر آپ دنیا دار بادشاہ ہیں تو ہمیں آپ سے راحت مل جائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ اس وقت بشر بن براء رضی اللہ عنہ تھے جو موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ (فتح الباري: 303/10) (3) امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ زہر کا اثر انداز ہونا بھی متعدی بیماری کی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن پر موقوف ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بداثرات سے محفوظ رہے اور آپ کے صحابی حضرت بشر بن براء رضی اللہ عنہ موقع پر ہی جان بحق ہو گئے۔
ترجمۃ الباب:
اس امر کو حضرت عروہ نے ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے انہوں نے نبی ﷺسے بیان کیا ہے
حدیث ترجمہ:
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور ان سے ابو ہریرہ ؓ نے، انہوں نے بیان کیا کہ جب خیبر فتح ہوا تو رسول اللہ ﷺ کو ایک بکری ہدیہ میں پیش کی گئی (ایک یہودی عورت زینب بنت حرث نے پیش کی تھی) جس میں زہر بھرا ہوا تھا، اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہاں پر جتنے یہودی ہیں انہیں میرے پاس جمع کرو۔ چنانچہ سب آنحضرت ﷺ کے پاس جمع کئے گئے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں تم سے ایک بات پوچھو ں گا کیا تم مجھے صحیح صحیح بات بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اے ابو القاسم! پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا تمہارا پردادا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ فلاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم جھوٹ کہتے ہو تمہارا پردادا تو فلاں ہے۔ اس پر وہ بولے کہ آپ نے سچ فرمایا درست فرمایا پھر آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کیا اگر میں تم سے کوئی بات پوچھوں گا تو تم مجھے سچ سچ بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اے ابو القاسم! اور اگر ہم جھوٹ بولیں بھی تو آپ ہمارا جھوٹ پکڑ لیں گے جیسا کہ ابھی ہمارے پردادا کے متعلق آپ نے ہمارا جھوٹ پکڑ لیا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا دوزخ والے کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کچھ دن کے لیے تو ہم اس میں رہیں گے پھر آپ لوگ ہماری جگہ لے لیں گے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اس میں ذلت کے ساتھ پڑے رہو گے، واللہ! ہم اس میں تمہاری جگہ کبھی نہیں لیں گے۔ آپ نے پھر ان سے دریافت فرمایا کیا اگر میں تم سے ایک بات پوچھوں تو تم مجھے اس کے متعلق صحیح صحیح بتا دو گے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں؟ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا، انہوں نے کہا کہ ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے دریافت فرمایا کہ تمہیں اس کام پر کس جذبہ نے آمادہ کیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ اگر آپ جھوٹے ہوں گے تو ہمیں آپ سے نجات مل جائے گی اور اگرسچے ہوں گے تو آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
حدیث حاشیہ:
یہودیوں کا خیال صحیح ہوا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اس زہر سے بذیعہ وحی مطلع فرما دیا مگر ذرا سا آپ چکھ چکے تھے جس کا اثر آخر تک رہا۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو عالم الغیب ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو آپ اسے اپنے ہاتھ نہ لگاتے مگر بعد میں وحی سے معلوم ہوا سچ فرمایا ﴿وَلَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ﴾(الاعراف:188)اگر میں غیب جانتا تو بہت سی بھلائیاں جمع کر لیتا اور کبھی مجھ کو برائی نہ چھو سکتی۔ معلوم ہوا کہ آپ کے لیے عالم الغیب ہونے کا عقیدہ بالکل باطل ہے۔ دوسری روایت میں یوں ہے کہ وہ عورت کہنے لگی جس نے زہر ملایا تھا کہ آپ نے میرے بھائی، خاوند اور قوم والوں کو قتل کرایا میں نے چاہا کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو یہ گوشت خود آپ سے کہہ دے گا اور اگر آپ دنیا دار بادشاہ ہیں تو آپ سے ہم کو راحت مل جائے گی۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : When Khaibar was conquered, Allah's Apostle (ﷺ) was presented with a poisoned (roasted) sheep. Allah's Apostle (ﷺ) said, "Collect for me all the Jews present in this area." (When they were gathered) Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "I am going to ask you about something; will you tell me the truth?" They replied, "Yes, O Abal-Qasim!" Allah's Apostle (ﷺ) said to them, "Who is your father?" They said, "Our father is so-and-so." Allah's Apostle (ﷺ) said, "You have told a lie. for your father is so-and-so," They said, "No doubt, you have said the truth and done the correct thing." He again said to them, "If I ask you about something; will you tell me the truth?" They replied, "Yes, O Abal-Qasim! And if we should tell a lie you will know it as you have known it regarding our father," Allah's Apostle (ﷺ) then asked, "Who are the people of the (Hell) Fire?" They replied, "We will remain in the (Hell) Fire for a while and then you (Muslims) will replace us in it" Allah's Apostle (ﷺ) said to them. ''You will abide in it with ignominy. By Allah, we shall never replace you in it at all." Then he asked them again, "If I ask you something, will you tell me the truth?" They replied, "Yes." He asked. "Have you put the poison in this roasted sheep?" They replied, "Yes," He asked, "What made you do that?" They replied, "We intended to learn if you were a liar in which case we would be relieved from you, and if you were a prophet then it would not harm you."