Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever got (or was able to offer) one Rak'a of the Fajr prayer (in time). [One Rak'a means, one standing, one bowing, and two prostrations])
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
579.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی، وہ نماز فجر پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پانے سے ہی پوری نماز ادا ہو گئی اور اسے اب بقیہ نماز مکمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نماز کے وقت ادا کو پالیا، اب وہ باقی ماندہ نماز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے بعد پڑھے گا تو بھی اسے ادا نماز ہی کا ثواب ملے گا۔ نماز کاجوحصہ وقت نکلنے کے بعد پڑھا گیا ہے، اسے بھی ادا ہی شمار کیا جائے گا، وہ قضا میں شامل نہیں ہوگا۔ جمہور محدثین کے ہاں حدیث کا یہی مفہوم ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: ’’جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالی اور ایک طلوع آفتاب کے بعد پڑھی تو اس نے پوری نماز کو پالیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھی اور پھر غروب آفتاب کے بعد باقی ماندہ نماز ادا کی تو اس کی نماز قضا نہیں ہوگی۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقی :378/1) (2) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: اگر کسی کو نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پڑھنےکا وقت مل جاتا ہے تو وہ گویا پوری نماز وقت ادا ہی میں پڑھتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔ اس حدیث کے الفاظ اس بات پر رہنمائی کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایک رکعت پڑھ لی ہے تو اس نے اس نماز کا وقت ادا پالیا ہے۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم حصہ ملتا ہےتو وہ وقت ادا کو پانے والا نہیں ہوگا۔ اس طرح وقت ادا کے پالینے پر دوامرمرتب ہوتے ہیں:٭بلاشبہ جس نے ایک رکعت کو پا لیا تو اس کی باقی ماندہ نماز بھی وقت ادا میں شمار ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دانستہ طور پر نماز مؤخر کرے کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام نماز وقت ادا میں مکمل کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کاانتطار کرتا رہتا ہے،جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان چلاجاتا ہے تو کھڑا ہوکر چار ٹھونگیں مار کر اسے مکمل کرلیتا ہے۔وہ اس میں برائے نام ہی اللہ کاذکر کرتا ہے۔‘‘٭جو شخص کسی نماز کے وقت سے ایک رکعت ادا کرنے کی مقدار پالے، خواہ شروع وقت سے ہویاآخر وقت سے، اس پر پوری نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل دومثالوں سے کی جاتی ہے:٭ایک عورت کو غروب آفتاب سے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ وہ اس وقت میں ایک رکعت پڑھ سکتی تھی، لیکن اس نے نماز نہیں پڑھی تو اس کے ذمے پوری نماز مغرب کی ادائیگی ضروری ہے۔ حیض سے فراغت کے بعد وہ پوری نمازکی قضا کرے گی۔٭اگر کسی عورت کو طلوع آفتاب سے اتنا وقت پہلے حیض سے طہارت حاصل ہوئی کہ اس وقت میں فجر کی ایک رکعت ادا کی جاسکتی ہوتو اس کے ذمے پوری نماز فجر کی ادائیگی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عورت کو غروب آفتاب کے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز مغرب کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ طلوع آفتاب سےاتنا وقت پہلے حیض سے پاک ہوتی ہے کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز فجر کی ادائیگی ضروری نہیں ہے، کیونکہ دونوں صورتوں میں اسے کم ازکم ایک رکعت ادا کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16، 17) (3) علامہ نووی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی ایک رکعت پڑھی، لیکن سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی، بلکہ وہ اسے مکمل کرے، ایسا کرنے سے اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ عصر کے متعلق تو تمام علمائے امت کا اتفاق ہے، جبکہ نماز فجر کے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ تمام فقہاء کا یہ موقف ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی، کیونکہ وہ اب ایسے وقت میں داخل ہوچکا ہے جس میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے بخلاف غروب شمس کے۔ یہ حدیث امام ابو حنیفہ کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (شرح الکرماني: 219/2) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس مفہوم کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ احادیث علامہ طحاوی ؒ کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ امام طحاوی ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث، بچے، کافر اور حائضہ عورت کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر بچے کی بلوغت، کافر کے اسلام اور حائضہ عورت کی طہارت کے کچھ دیر بعد سورج طلوع یا غروب ہوا کہ اس سے پہلے ایک رکعت پڑھنے کا وقت ہوتو ان پر اس نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ دراصل امام طحاوی ؒ اس تخصیص کے ذریعے سے اپنے مذہب کی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت ہی پڑھ سکے تو اس کی نماز فاسد ہو گی، کیونکہ اس نے اپنی نماز کی تکمیل وقت کراہت میں کی ہے۔ جب مذکورہ حدیث ان کے اختیار کردہ موقف کے خلاف تھی تو انھوں نے اس حدیث کو بچے، کافر، عورت اور مسبوق وغیرہ کے ساتھ خاص کر دیا۔ (فتح الباري:75/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
575
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
579
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
579
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
579
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
اس عنوان سے مقصود نماز فجر کاآخری وقت بیان کرنا ہے کہ وہ طلوع آفتاب تک ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے طلوع آفتاب سے پہلے فجر کی ایک رکعت پا لی، وہ نماز فجر پانے میں کامیاب ہو گیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پا لی وہ نماز عصر پانے میں کامیاب ہو گیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پانے سے ہی پوری نماز ادا ہو گئی اور اسے اب بقیہ نماز مکمل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص طلوع آفتاب یا غروب آفتاب سے پہلے ایک رکعت پڑھ لے تو اس نے نماز کے وقت ادا کو پالیا، اب وہ باقی ماندہ نماز طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے بعد پڑھے گا تو بھی اسے ادا نماز ہی کا ثواب ملے گا۔ نماز کاجوحصہ وقت نکلنے کے بعد پڑھا گیا ہے، اسے بھی ادا ہی شمار کیا جائے گا، وہ قضا میں شامل نہیں ہوگا۔ جمہور محدثین کے ہاں حدیث کا یہی مفہوم ہے۔ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے: ’’جس نے طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت پالی اور ایک طلوع آفتاب کے بعد پڑھی تو اس نے پوری نماز کو پالیا۔ اور جس نے غروب آفتاب سے پہلے عصر کی ایک رکعت پڑھی اور پھر غروب آفتاب کے بعد باقی ماندہ نماز ادا کی تو اس کی نماز قضا نہیں ہوگی۔‘‘(السنن الکبرٰی للبیھقی :378/1) (2) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں: اگر کسی کو نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے پہلے ایک رکعت پڑھنےکا وقت مل جاتا ہے تو وہ گویا پوری نماز وقت ادا ہی میں پڑھتا ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ جس نے نماز کی ایک رکعت پالی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔ اس حدیث کے الفاظ اس بات پر رہنمائی کرتے ہیں کہ نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے اگر کسی نے ایک رکعت پڑھ لی ہے تو اس نے اس نماز کا وقت ادا پالیا ہے۔ اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم حصہ ملتا ہےتو وہ وقت ادا کو پانے والا نہیں ہوگا۔ اس طرح وقت ادا کے پالینے پر دوامرمرتب ہوتے ہیں:٭بلاشبہ جس نے ایک رکعت کو پا لیا تو اس کی باقی ماندہ نماز بھی وقت ادا میں شمار ہوگی، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دانستہ طور پر نماز مؤخر کرے کیونکہ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام نماز وقت ادا میں مکمل کرے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’منافق کی نماز یہ ہے کہ وہ بیٹھا سورج کاانتطار کرتا رہتا ہے،جب وہ شیطان کے دونوں سینگوں کے درمیان چلاجاتا ہے تو کھڑا ہوکر چار ٹھونگیں مار کر اسے مکمل کرلیتا ہے۔وہ اس میں برائے نام ہی اللہ کاذکر کرتا ہے۔‘‘٭جو شخص کسی نماز کے وقت سے ایک رکعت ادا کرنے کی مقدار پالے، خواہ شروع وقت سے ہویاآخر وقت سے، اس پر پوری نماز ادا کرنا ضروری ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل دومثالوں سے کی جاتی ہے:٭ایک عورت کو غروب آفتاب سے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ وہ اس وقت میں ایک رکعت پڑھ سکتی تھی، لیکن اس نے نماز نہیں پڑھی تو اس کے ذمے پوری نماز مغرب کی ادائیگی ضروری ہے۔ حیض سے فراغت کے بعد وہ پوری نمازکی قضا کرے گی۔٭اگر کسی عورت کو طلوع آفتاب سے اتنا وقت پہلے حیض سے طہارت حاصل ہوئی کہ اس وقت میں فجر کی ایک رکعت ادا کی جاسکتی ہوتو اس کے ذمے پوری نماز فجر کی ادائیگی ہے۔ اس کے برعکس اگر کسی عورت کو غروب آفتاب کے اتنی دیر بعد حیض آیا کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز مغرب کی ادائیگی نہیں ہوگی۔ اسی طرح اگر وہ طلوع آفتاب سےاتنا وقت پہلے حیض سے پاک ہوتی ہے کہ اس میں ایک رکعت نہیں پڑھی جاسکتی تھی تو اس کے ذمے نماز فجر کی ادائیگی ضروری نہیں ہے، کیونکہ دونوں صورتوں میں اسے کم ازکم ایک رکعت ادا کرنے کا بھی موقع نہیں ملا۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16، 17) (3) علامہ نووی ؒ اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی صریح دلیل ہے کہ جس نے صبح یا عصر کی ایک رکعت پڑھی، لیکن سلام پھیرنے سے پہلے پہلے اس کا وقت ختم ہوگیا تو اس کی نماز باطل نہ ہوگی، بلکہ وہ اسے مکمل کرے، ایسا کرنے سے اس کی نماز میں کوئی خلل واقع نہیں ہوگا۔ عصر کے متعلق تو تمام علمائے امت کا اتفاق ہے، جبکہ نماز فجر کے متعلق امام ابو حنیفہ ؒ کے علاوہ تمام فقہاء کا یہ موقف ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ طلوع شمس سے اس کی نماز باطل ہوجائے گی، کیونکہ وہ اب ایسے وقت میں داخل ہوچکا ہے جس میں نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے بخلاف غروب شمس کے۔ یہ حدیث امام ابو حنیفہ کے موقف کی تردید کرتی ہے۔ (شرح الکرماني: 219/2) (4) حافظ ابن حجر ؒ نے اس مفہوم کی متعدد روایات ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ احادیث علامہ طحاوی ؒ کے موقف کی تردید کرتی ہیں۔ امام طحاوی ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث، بچے، کافر اور حائضہ عورت کے ساتھ خاص ہے، یعنی اگر بچے کی بلوغت، کافر کے اسلام اور حائضہ عورت کی طہارت کے کچھ دیر بعد سورج طلوع یا غروب ہوا کہ اس سے پہلے ایک رکعت پڑھنے کا وقت ہوتو ان پر اس نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔ دراصل امام طحاوی ؒ اس تخصیص کے ذریعے سے اپنے مذہب کی تائید کرنا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی طلوع آفتاب سے پہلے ایک رکعت ہی پڑھ سکے تو اس کی نماز فاسد ہو گی، کیونکہ اس نے اپنی نماز کی تکمیل وقت کراہت میں کی ہے۔ جب مذکورہ حدیث ان کے اختیار کردہ موقف کے خلاف تھی تو انھوں نے اس حدیث کو بچے، کافر، عورت اور مسبوق وغیرہ کے ساتھ خاص کر دیا۔ (فتح الباري:75/2)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک سے، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار اور بسر بن سعید اور عبدالرحمن بن ہرمز اعرج سے، ان تینوں نے ابوہریرہ ؓ کے واسطے سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے فجر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج نکلنے سے پہلے پا لی اس نے فجر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔ اور جس نے عصر کی ایک رکعت (جماعت کے ساتھ) سورج ڈوبنے سے پہلے پا لی، اس نے عصر کی نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔
حدیث حاشیہ:
اب اسے چاہیے کہ باقی نماز بلا تردد پوری کرلے۔ اس کو نماز وقت ہی میں ادا کرنے کا ثواب حاصل ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever could get one Rak'a (of the Fajr prayer) before sunrise, he has got the (morning) prayer and whoever could get one Rak'a of the'Asr prayer before sunset, he has got the ('Asr) prayer."