مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ نے کہا کہ ایک گنوار نے رسول اللہ ﷺکی چادر کھینچی
5793.
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔
تشریح:
یہ ایک لمبی حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اختصار سے بیان کیا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حرمت شراب سے پہلے شراب نوشی کی، پھر انہوں نے نشے کی حالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو اونٹنیوں کو ذبح کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ چادر زیب تن کیے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقصان کی تلافی کریں، لیکن اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں دھت تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چادر پہننا ثابت کیا ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں چادر پہننے کا ذکر آیا ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5574
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5793
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5793
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5793
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
عام طور پر عربوں کا لباس دو چادریں ہوا کرتا تھا، ایک اوپر اوڑھ لیتے جسے رداء کہا جاتا تھا اور دوسری چادر تہ بند کے طور پر باندھ لیتے تھے جسے ازار کہتے تھے۔ اس عنوان کے تحت اوڑھنے والی چادروں کا بیان ہو گا، چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک اعرابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کھینچ لی تھی۔ اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔ (صحیح البخاری، اللباس، حدیث: 5809)
حضرت انس ؓ نے کہا کہ ایک گنوار نے رسول اللہ ﷺکی چادر کھینچی
حدیث ترجمہ:
حضرت علی ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک مرتبہ اپنی چادر منگوائی پھر اسے زیب تن کر کے روانہ ہوئے۔ میں اور حضرت زید بن حارثہ ؓ بھی آپ کے پیچھے ہولیے۔ آپ اس گھر میں آئے جہاں حضرت حمزہ ؓ تھے۔ آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی تو انہوں نے آپ کو اجازت دے دی۔
حدیث حاشیہ:
یہ ایک لمبی حدیث ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اختصار سے بیان کیا ہے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے حرمت شراب سے پہلے شراب نوشی کی، پھر انہوں نے نشے کی حالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دو اونٹنیوں کو ذبح کر دیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تو آپ چادر زیب تن کیے ہوئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نقصان کی تلافی کریں، لیکن اس وقت حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نشے میں دھت تھے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس آ گئے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چادر پہننا ثابت کیا ہے، اس کے علاوہ بھی متعدد احادیث میں چادر پہننے کا ذکر آیا ہے۔
ترجمۃ الباب:
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے نبی ﷺ کی چادر کھینچی
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو یونس نے، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین نے خبر دی، انہیں حسین بن علی ؓ نے خبر دی کہ علی ؓ نے بیان کیا (کہ حمزہ ؓ نے حرمت شراب سے پہلے شراب کے نشہ میں جب ان کی اونٹنی ذبح کر دی اور انہوں نے آنحضرت ﷺ سے آ کر اس کی شکایت کی تو) آنحضرت ﷺ نے اپنی چادر منگوائی اور اسے اوڑھ کر تشریف لے چلنے لگے۔ میں اور زید بن حارثہ ؓ آپ کے پیچھے پیچھے تھے۔ آخر آپ اس گھر میں پہنچے جس میں حمزہ ؓ تھے، آپ نے اندر آنے کی اجازت مانگی اور انہوں نے آپ حضرات کو اجازت دی۔
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاں چادر اوڑھ کر چلنے لگے، باب سے یہی مطابقت ہے مفصل حدیث کئی جگہ ذکر میں آچکی ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ali (RA) : The Prophet (ﷺ) asked for his Rida, put it on and set out walking. Zaid bin Haritha and I followed him till he reached the house where Harnza (bin 'Abdul Muttalib) was present and asked for permission to enter, and they gave us permission.