باب: جو کوئی کسی نماز کی ایک رکعت پا لے‘ اس نے و ہ نماز پالی
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever got (or was able to offer) one Rak'a of a prayer (in time))
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
580.
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔‘‘
تشریح:
(1) اس حدیث میں گزشتہ حدیث کے اعتبار سے عموم پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہی حکم صرف نماز فجر اور نماز عصر کےلیے بیان ہوا ہے جبکہ اس حدیث میں پانچوں نمازوں کو اس حکم میں شامل کردیا گیا ہے، البتہ اگرالصلاة کے "الف لام"عہد کا بنائیں تو اس سے مراد فجر اور عصر ہی ہوں گی۔ اس صورت میں دونوں عنوانات کا ایک ہی مطلب ہوگا جو بظاہر تکرار ہے، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب سے مراد ہے کہ جس نے ایک رکعت جتنا وقت پالیا اور اس باب کا مطلب ہےکہ جس نے ایک رکعت کو پالیا۔ (شرح الکرماني:220/2) (2) اس مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے ایک دقیق نکتہ بیان کیا ہے کہ امام بخاری ؒ جس مقام پر الفاظ حدیث کو اپنا کوئی عنوان قرار دیں اور حدیث کے الفاظ میں کوئی تبدیلی کریں تو اسی تبدیلی کے ساتھ وہ حدیث ضرور کہیں نہ کہیں موجود ہو گی، چنانچہ اس مقام پر حدیث میں (ركعة من الصلاة) کے الفاظ ہیں جبکہ عنوان میں(من الصلاة ركعة) کہا ہے تو اس تبدیلی کے ساتھ یہ حدیث بیہقی میں موجود ہے۔ اس سے احادیث کے متعلق امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا پتہ چلتا ہے۔ (فتح الباري: 76/2) (3) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تقاضا ہےکہ کسی نماز کی ایک رکعت پالینے سے اس کا وقت ادا پایا جاتا ہے، یعنی اگر کسی نے کسی نماز کا اتنا وقت پالیا کہ اس میں صرف ایک ہی رکعت ادا کی جاسکےتو اس نے گویا مکمل نماز کوپالیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم ادا کرنے کا وقت ملا تو اس سے وقت ادا فوت ہوجاتا ہے۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
576
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
580
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
580
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
580
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے نماز کی ایک رکعت پا لی اس نے پوری نماز کو پا لیا۔‘‘
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں گزشتہ حدیث کے اعتبار سے عموم پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں یہی حکم صرف نماز فجر اور نماز عصر کےلیے بیان ہوا ہے جبکہ اس حدیث میں پانچوں نمازوں کو اس حکم میں شامل کردیا گیا ہے، البتہ اگرالصلاة کے "الف لام"عہد کا بنائیں تو اس سے مراد فجر اور عصر ہی ہوں گی۔ اس صورت میں دونوں عنوانات کا ایک ہی مطلب ہوگا جو بظاہر تکرار ہے، چنانچہ علامہ کرمانی ؒ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب سے مراد ہے کہ جس نے ایک رکعت جتنا وقت پالیا اور اس باب کا مطلب ہےکہ جس نے ایک رکعت کو پالیا۔ (شرح الکرماني:220/2) (2) اس مقام پر حافظ ابن حجر ؒ نے ایک دقیق نکتہ بیان کیا ہے کہ امام بخاری ؒ جس مقام پر الفاظ حدیث کو اپنا کوئی عنوان قرار دیں اور حدیث کے الفاظ میں کوئی تبدیلی کریں تو اسی تبدیلی کے ساتھ وہ حدیث ضرور کہیں نہ کہیں موجود ہو گی، چنانچہ اس مقام پر حدیث میں (ركعة من الصلاة) کے الفاظ ہیں جبکہ عنوان میں(من الصلاة ركعة) کہا ہے تو اس تبدیلی کے ساتھ یہ حدیث بیہقی میں موجود ہے۔ اس سے احادیث کے متعلق امام بخاری ؒ کی وسعت علم کا پتہ چلتا ہے۔ (فتح الباري: 76/2) (3) شیخ محمد بن صالح العثیمین ؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا تقاضا ہےکہ کسی نماز کی ایک رکعت پالینے سے اس کا وقت ادا پایا جاتا ہے، یعنی اگر کسی نے کسی نماز کا اتنا وقت پالیا کہ اس میں صرف ایک ہی رکعت ادا کی جاسکےتو اس نے گویا مکمل نماز کوپالیا۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ایک رکعت سے کم ادا کرنے کا وقت ملا تو اس سے وقت ادا فوت ہوجاتا ہے۔ (رسالة مواقیت الصلاة، ص: 16)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے ابن شہاب سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن بن عوف ؓ سے انھوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نے ایک رکعت نماز (باجماعت) پا لی اس نے نماز (باجماعت کا ثواب) پا لیا۔
حدیث حاشیہ:
اگلا باب فجر اور عصر کی نمازوں سے خاص تھا اور یہ باب ہر نماز کو شامل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جس نماز کی ایک رکعت بھی وقت گزرنے سے پہلے مل گئی گویا اسے ساری نماز مل گئی اب اس کی یہ نماز ادا ہی مانی جائے گی، قضا نہ مانی جائے گی۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ اس پر سارے مسلمانوں کا اجماع ہے پس وہ نمازی اپنی نماز پوری کرلے، اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگرکسی نماز کا وقت ایک رکعت پڑھنے تک کا باقی ہو اور اس وقت کوئی کافر مسلمان ہوجائے یا کوئی لڑکا بالغ ہوجائے یا کوئی دیوانہ ہوش میں آجائے یا حائضہ پاک ہوجائے تو اس نماز کا پڑھنا اس کے اوپر فرض ہوگا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA): Allah's Apostle (ﷺ) said, "Whoever could get one Rak'a of a prayer, (in its proper time) he has got the prayer."