مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5806.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: محرم آدمی قمیض، پگڑی، شلوار، لمبی ٹوپی نہ پہنے اور نہ کپڑے پہنے جنہیں زعفران اور ورس لگا ہو، وہ موزے بھی نہ پہنے مگر جسے جوتا میسر نہ ہو تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے (تاکہ وہ جوتا بن جائے)
تشریح:
(1) اس حدیث میں ہے کہ محرم آدمی پگڑی نہیں پہن سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو اس کے پہننے کی اجازت ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی صریح حدیث پگڑی کے متعلق پیش نہیں کی۔ شاید انہیں ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق کوئی حدیث دستیاب نہیں ہو سکی۔ حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا جبکہ آپ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3584) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عمامے، یعنی پگڑی کے دونوں سرے اپنے کندھوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3587) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سیاہ رنگ کا عمامہ پہن رکھا تھا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4076) (3) زمانۂ قدیم سے شریف لوگ پگڑی باندھتے آئے ہیں اور اس کے باندھنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں کسی خاص انداز سے پگڑی باندھنا ضروری نہیں ہے۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5586
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5806
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5806
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5806
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: محرم آدمی قمیض، پگڑی، شلوار، لمبی ٹوپی نہ پہنے اور نہ کپڑے پہنے جنہیں زعفران اور ورس لگا ہو، وہ موزے بھی نہ پہنے مگر جسے جوتا میسر نہ ہو تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے (تاکہ وہ جوتا بن جائے)
حدیث حاشیہ:
(1) اس حدیث میں ہے کہ محرم آدمی پگڑی نہیں پہن سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو اس کے پہننے کی اجازت ہے۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی صریح حدیث پگڑی کے متعلق پیش نہیں کی۔ شاید انہیں ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق کوئی حدیث دستیاب نہیں ہو سکی۔ حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا جبکہ آپ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3584) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عمامے، یعنی پگڑی کے دونوں سرے اپنے کندھوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے۔ (سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3587) حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سیاہ رنگ کا عمامہ پہن رکھا تھا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4076) (3) زمانۂ قدیم سے شریف لوگ پگڑی باندھتے آئے ہیں اور اس کے باندھنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں کسی خاص انداز سے پگڑی باندھنا ضروری نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہیں ان کے والد (حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ) نے خبر دی کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ محرم قمیص نہ پہنے نہ عمامہ پہنے نہ پاجامہ نہ برنس اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنے جس میں زعفران اور ورس لگا ہو اور نہ موزے پہنے البتہ اگر کسی کو چپل نہ ملیں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے تک کاٹ دے۔ (پھر پہنے)
حدیث حاشیہ:
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA) : The Prophet (ﷺ) said, "A Muhrim should not wear a shirt, a turban, trousers, hooded cloaks, a garment touched with (perfumes) of saffron or wars, or Khuffs except if one has no sandals in which case he should cut short the Khuffs below the ankles."