Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Al-Aksiya and Al-Khama'is)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5815.
سیدہ عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی چادر (کملی) کو چہرے پر ڈالتے تھے اور سب سانس گھٹنے لگتا تو چہہ کھول دیتے آپ نے اسی حالت میں فرمایا: ”یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔“ آپ ﷺ ان کے عمل بد سے مسلمانوں کو ڈرا رہے تھے۔
تشریح:
(1) ہمارے ہاں مسلمانوں کی ایک ایسی قسم بھی دستیاب ہے جنہوں نے یہودونصاریٰ کی طرح بزرگوں کی قبروں کو مزین کر کے دکانوں کی شکل دے رکھی ہے، وہاں لوگوں سے سجدے کراتے، عرضیاں لٹکاتے اور نیازیں چڑھاتے ہیں۔ یہ لوگ تو قبر پر اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں اور قبر کے اندر بزرگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں ملعون ہیں، خواہ وہ حاجی اور نمازی ہی کیوں نہ ہوں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے "خميصة" یعنی سیاہ نقش و نگار والا کمبل ثابت کیا ہے کہ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آخری وقت میں اپنے اوپر اوڑھا تھا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5595
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5815
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5815
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5815
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
کساء اونی چادر کو کہتے ہیں۔ اگر اس میں پھول ہوں تو اسے خمیصہ کہا جاتا ہے۔ یہ سیاہ نقش و نگار والی ہوتی تھی۔ یہ سلف صالحین کا لباس تھا۔ (عمدۃ القاری: 15/30)
سیدہ عائشہ اور حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے ان دونوں نے کہا کہ جب رسول اللہ ﷺ پر آخری مرض طاری ہوا تو آپ اپنی چادر (کملی) کو چہرے پر ڈالتے تھے اور سب سانس گھٹنے لگتا تو چہہ کھول دیتے آپ نے اسی حالت میں فرمایا: ”یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا تھا۔“ آپ ﷺ ان کے عمل بد سے مسلمانوں کو ڈرا رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
(1) ہمارے ہاں مسلمانوں کی ایک ایسی قسم بھی دستیاب ہے جنہوں نے یہودونصاریٰ کی طرح بزرگوں کی قبروں کو مزین کر کے دکانوں کی شکل دے رکھی ہے، وہاں لوگوں سے سجدے کراتے، عرضیاں لٹکاتے اور نیازیں چڑھاتے ہیں۔ یہ لوگ تو قبر پر اپنی دوکانداری چمکاتے ہیں اور قبر کے اندر بزرگ ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ کے ہاں ملعون ہیں، خواہ وہ حاجی اور نمازی ہی کیوں نہ ہوں۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے "خميصة" یعنی سیاہ نقش و نگار والا کمبل ثابت کیا ہے کہ اسے استعمال کیا جا سکتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آخری وقت میں اپنے اوپر اوڑھا تھا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعدنے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی، ان سے حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ پر جب آخری مرض طاری ہوا تو آ پ اپنی کملی چہرہ مبارک پر ڈالتے تھے اور جب سانس گھٹنے لگتا تو چہرہ کھول لیتے اور اسی حالت میں فرماتے ”یہود ونصاریٰ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو گئے کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔“ آنحضرت ﷺ ان کے عمل بد سے (مسلمانوں کو) ڈرا رہے تھے۔
حدیث حاشیہ:
یہود ونصاریٰ سے بڑھ کر کمبخت وہ مسلمان ہیں جنہوں نے بزرگوں اور درویشوں کی قبور کو مزین کرکے دکانوں کی شکل دے رکھی ہے اور وہاں لوگوں سے سجدہ کراتے ہیں اور عرض کرتے ہیں وہاں عرضیاں لٹکاتے نیازیں چڑھاتے ہیں۔ یہ لوگ قبر کے باہر سے یہ کام کرتے ہیں اور وہ بزرگ قبروں کے اندر سے ان پر لعنت بھیجتے ہیں کیونکہ یہ سب بزرگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش بردار اور آپ کی مرضی پر چلنے والے ہیں یہی قبروں کے پجاری عنداللہ مشرک اور ملعون ہیں خواہ یہ کیسے ہی نمازی وحاجی ہوں۔ ہرگز تو ازاں قو نباشی کہ فریبند حق را بہ سجودے ونبی را بہ درودے
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Aisha (RA) and 'Abdullah bin 'Abbas (RA) : When the disease of Allah's Apostle (ﷺ) got aggravated, he covered his face with a Khamisa, but when he became short of breath, he would remove it from his face and say, "It is like that! May Allah curse the Jews Christians because they took the graves of their prophets as places of worship." By that he warned his follower of imitating them, by doing that which they did.