مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5819.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور آپ نے دو اوقات میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا: نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج ٖغروب ہونے تک اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر اور گٹھنے اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر زمین و آسمان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو اور اشتمال صماء سے بھی منع فرمایا۔
تشریح:
(1) بیع ملامسہ یہ ہے کہ جو کپڑا خریدنا ہو اسے ہاتھ لگا دینے ہی سے بیع پختہ ہو جائے اور اسے الٹ پلٹ کر نہ دیکھنے کی شرط ہوئی ہو اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طرف کپڑا پھینکنے ہی سے بیع پختہ ہو جائے۔ یہ دونوں صورتیں دھوکے سے خالی نہیں ہیں، اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔ (2) ایک کپڑا لپیٹنے کے منع ہونے کی وجہ عریانی ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات اوباش لوگ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں، ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے اور اشتمال الصماء اس لیے منع ہے کہ اس صورت میں انسان موذی جانور اور زہریلے کیڑے مکوڑوں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5598
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5819
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5819
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5819
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
ایک ہی کپڑے کو اس طرح لپیٹ لینا کہ ہاتھ پاؤں باہر نہ نکل سکیں اسے عربی میں اشتمال الصماء کہتے ہیں ایسا کرنا منع ہے کیونکہ اس صورت میں انسان کسی طرح نہیں سنبھل سکتا۔ اس انداز کو پیجابی میں ”بولی بکل“ کہتے ہیں
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے بیع منابذہ سے منع فرمایا اور آپ نے دو اوقات میں نماز پڑھنے سے بھی منع فرمایا: نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج ٖغروب ہونے تک اور اس سے بھی منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر اور گٹھنے اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر زمین و آسمان کے درمیان کوئی چیز نہ ہو اور اشتمال صماء سے بھی منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
(1) بیع ملامسہ یہ ہے کہ جو کپڑا خریدنا ہو اسے ہاتھ لگا دینے ہی سے بیع پختہ ہو جائے اور اسے الٹ پلٹ کر نہ دیکھنے کی شرط ہوئی ہو اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طرف کپڑا پھینکنے ہی سے بیع پختہ ہو جائے۔ یہ دونوں صورتیں دھوکے سے خالی نہیں ہیں، اس لیے ان سے منع کیا گیا ہے۔ (2) ایک کپڑا لپیٹنے کے منع ہونے کی وجہ عریانی ہے کیونکہ اس سے شرمگاہ ظاہر ہوتی ہے۔ بعض اوقات اوباش لوگ جان بوجھ کر ایسا کرتے ہیں، ان کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے اور اشتمال الصماء اس لیے منع ہے کہ اس صورت میں انسان موذی جانور اور زہریلے کیڑے مکوڑوں سے اپنا دفاع نہیں کر سکتا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، ان سے خبیب بن عبدالرحمن نے، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے بیع ملامسہ اور منابذہ سے منع فرمایا اور دووقت نمازوں سے بھی آپ نے منع فرمایا نماز فجر کے بعد سورج بلند ہونے تک اور عصر کے بعد سورج غروب ہونے تک اور اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص صرف ایک کپڑا جسم پر لپیٹ کر گھٹنے اوپر اٹھا کر اس طرح بیٹھ جائے کہ اس کی شرمگاہ پر آسمان وزمین کے درمیان کوئی چیز نہ ہو۔ اور اشتمال صماء سے منع فرمایا۔
حدیث حاشیہ:
”صماء“ اس طرح چادر اوڑھنے کو کہتے ہیں کہ چادر کو داہنی طرف سے لے کر بائیں شانے پر ڈالا جائے اور پھر وہی کنارہ پیچھے سے لے کر داہنے شانے پر ڈال لیا جائے اور اس طرح چادر میں دونوں شانوں کو لپیٹ لیا جائے۔ اشتمال صماء کا مفہوم یہ ہے کہ صرف جسم پر ایک چادر ہو اور اس کے سوا کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔ اس صورت میں بیٹھتے وقت ایک کنارہ اٹھانا پڑتا تھا اور اس سے شرمگاہ کھل جاتی تھی۔ بیع ملامسہ یہ ہے کہ جس کپڑے کو خرید نا ہو بس اسے چھو لے رات کو یا دن کو اور الٹ کر نہ دیکھنے کی شرط ہوئی ہو اور بیع منابذہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کی طرف اپنا کپڑا پھینک دے بس بیع پوری ہوگئی (یہی شرط ہوئی ہو) یہ دونوں شکل دھوکے سے خالی نہیں اسی لیے منع کیا گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : The Prophet (ﷺ) had forbidden: (A) the Mulamasa and Munabadha (bargains), (B) the offering of two prayers, one after the morning compulsory prayer till the sun rises, and the others, after the 'Asr prayer till the sun sets (C) He also forbade that one should sit wearing one garment, nothing of which covers his private parts (D) and prevent them from exposure to the sky; (E) he also forbade Ishtimal-as-Samma'.