مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5825.
حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ ۔ ۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔ ۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا۔ حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا: اللہ کی قسم اللہ کے رسول! یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اسے جماع کے وقت چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے اور مجھے پسند نہیں کرتی بلکہ رفاعہ ؓ کے پاس جانا چاہتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ بات ہے تو اس کے لیے تو حلال نہیں ہو سکتی یا اس سے نکاح کی صلاحیت نہیں رکھتی تاآنکہ یہ تیرا مزہ نہ چکھ لے۔“ آپ ﷺ نے اس کے ساتھ دو بچے دیکھ کر پوچھا: ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا تو یہ ہے وہ جس کے متعلق تو ایسی ایسی باتیں کر رہی تھی۔ اللہ کی قسم! یہ بچے تو شکل و صورت میں اس (عبدالرحمن) سے اس قدر ملتے جلتے ہیں جس طرح ایک کوا دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے۔“
تشریح:
(1) اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کپڑے کے پلو سے یہ تاثر دیا کہ اس کا آلۂ جماع کمزور ہے، میری شہوت پوری نہیں کر سکتا۔ اس کا خاوند اپنے دفاع کے لیے دو بچے ہمراہ لایا تاکہ اس کی کذب بیانی کو واضح کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی نافرمانی پر شوہر اسے پیٹ سکتا ہے۔ اگر ضرب شدید سے اس کا چمڑا متاثر ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ چونکہ وہ خاتون سبز رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے سبز رنگ کا کپڑا استعمال کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے، حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو میں نے آپ پر سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں دیکھی تھیں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4065) (3) سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، اہل جنت کے لیے ریشم کے سبز لباس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اوپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہو گی۔‘‘ مگر سبز رنگ کو بطور شعار اختیار کرنا قطعاً پسندیدہ نہیں۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5604
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5825
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5825
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5825
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عکرمہ سے روایت ہے کہ حضرت رفاعہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا۔ سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی۔ اس نے سیدہ عائشہ ؓ سے شکایت کی اور اپنے جسم پر مار کی وجہ سے سبز نشانات دکھائے۔ جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے۔ ۔ ۔ عادت کے طور پر عورتیں ایک دوسرے کی مدد کیا کرتی ہیں۔ ۔ تو سیدہ عائشہ ؓ نے فرمایا: اہل ایمان خاتون کا میں نے اس سے برا حال نہیں دیکھا، اس کی جلد اس کے کپڑے سے بھی زیادہ سبز تھی۔ اس کے شوہر نے سنا کہ اس کی بیوی رسول اللہ ﷺ کے پاس گئی ہے چنانچہ وہ بھی اپنے ساتھ دو بیٹے لے کر آ گئے جو اس کی پہلی بیوی کے بطن سے تھے اس کی بیوی نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے اس سے کوئی اور شکایت نہیں، البتہ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس سے زیادہ مجھے کفایت نہیں کرتا اس نے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا۔ حضرت عبدالرحمن ؓ نے کہا: اللہ کی قسم اللہ کے رسول! یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اسے جماع کے وقت چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے اور مجھے پسند نہیں کرتی بلکہ رفاعہ ؓ کے پاس جانا چاہتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر یہ بات ہے تو اس کے لیے تو حلال نہیں ہو سکتی یا اس سے نکاح کی صلاحیت نہیں رکھتی تاآنکہ یہ تیرا مزہ نہ چکھ لے۔“ آپ ﷺ نے اس کے ساتھ دو بچے دیکھ کر پوچھا: ”یہ تیرے بیٹے ہیں؟“ اس نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ”اچھا تو یہ ہے وہ جس کے متعلق تو ایسی ایسی باتیں کر رہی تھی۔ اللہ کی قسم! یہ بچے تو شکل و صورت میں اس (عبدالرحمن) سے اس قدر ملتے جلتے ہیں جس طرح ایک کوا دوسرے کے مشابہ ہوتا ہے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) اس عورت نے اپنے دوسرے شوہر عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہ کے نامرد ہونے کی طرف اشارہ کیا اور کپڑے کے پلو سے یہ تاثر دیا کہ اس کا آلۂ جماع کمزور ہے، میری شہوت پوری نہیں کر سکتا۔ اس کا خاوند اپنے دفاع کے لیے دو بچے ہمراہ لایا تاکہ اس کی کذب بیانی کو واضح کرے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدالرحمٰن بن زبیر کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ جواب دیا جو حدیث میں مذکور ہے۔ (2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کی نافرمانی پر شوہر اسے پیٹ سکتا ہے۔ اگر ضرب شدید سے اس کا چمڑا متاثر ہو تو بھی کوئی حرج نہیں۔ چونکہ وہ خاتون سبز رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی، اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان ثابت کیا ہے سبز رنگ کا کپڑا استعمال کیا جا سکتا ہے، چنانچہ ایک حدیث میں صراحت ہے، حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا تو میں نے آپ پر سبز رنگ کی دو دھاری دار چادریں دیکھی تھیں۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4065) (3) سبز رنگ ایک پسندیدہ رنگ ہے، اہل جنت کے لیے ریشم کے سبز لباس کا ذکر قرآن کریم میں ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ان کے اوپر کی پوشاک باریک سبز ریشم اور موٹے ریشم کی ہو گی۔‘‘ مگر سبز رنگ کو بطور شعار اختیار کرنا قطعاً پسندیدہ نہیں۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہاہم سے عبدالوہاب بن عبدالمجید ثقفی نے، کہا ہم کو ایوب سختیانی نے خبر دی، انہیں عکرمہ نے اور انہیں رفاعہ ؓ نے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ پھر ان سے عبدالرحمن بن زبیر قرظی ؓ نے نکاح کر لیا تھا۔ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ وہ خاتون سبز اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھیں، انہوں نے عائشہ ؓ سے (اپنے شوہر کی) شکایت کی اور اپنے جسم پر سبز نشانات (چوٹ کے) دکھائے پھر جب رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو (جیسا کہ عادت ہے) عکرمہ نے بیان کیا کہ عورتیں آپس میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ عائشہ ؓ نے (آنحضرت ﷺ سے) کہا کہ کسی ایمان والی عورت کا میں نے اس سے زیادہ برا حال نہیں دیکھا ان کا جسم ان کے کپڑے سے بھی زیادہ برا ہو گیا ہے۔ بیان کیا کہ ان کے شوہر نے بھی سن لیا تھا کہ بیوی حضور اکرم ﷺ کے پاس گئی ہیں چنانچہ وہ بھی آ گئے اور ان کے ساتھ ان کے دو بچے ان سے پہلی بیوی کے تھے ان کی بیوی نے کہا اللہ کی قسم مجھے ان سے کوئی اورشکایت نہیں البتہ ان کے ساتھ اس سے زیادہ اور کچھ نہیں جس سے میرا کچھ نہیں ہوتا۔ انہوں نے اپنے کپڑے کا پلو پکڑ کر اشارہ کیا (یعنی ان کے شوہر کمزور ہیں) اس پر ان کے شوہر نے کہا یا رسول اللہ! واللہ یہ جھوٹ بولتی ہے میں تو اس کو (جماع کے وقت) چمڑے کی طرح ادھیڑ کر رکھ دیتا ہوں مگر یہ شریر ہے یہ مجھے پسند نہیں کرتی اور رفاعہ کے یہاں دوبارہ جانا چاہتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے اس پر فرمایا کہ اگر یہ بات ہے تو تمہارے لیے وہ (رفاعہ) اس وقت تک حلال نہیں ہوں گے جب تک یہ (عبدالرحمن دوسرے شوہر) تمہارا مزا نہ چکھ لیں۔ بیان کیا کہ حضوراکرم ﷺ نے عبدالرحمن کے ساتھ دو بچے بھی دیکھے تو دریافت فرمایا کیا یہ تمہارے بچے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا، اس وجہ سے تم یہ باتیں سوچتی ہو۔ اللہ کی قسم یہ بچے ان سے اتنے ہی مشابہ ہیں جتنا کہ کوا کوے سے مشابہ ہوتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
وہ خاتون ہرے رنگ کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے تھی یہی باب سے مطابقت ہے۔ اس عورت نے اپنے خاوند کے نامرد ہونے کی شکایت کی تھی جس کے جواب کے لیے خاوند عبد الرحمن بن زبیر اپنے دونوں بچوں کو ساتھ لائے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کے بارے میں حضرت عبدالرحمن کی تصدیق کی اور عورت کی کذب بیانی محسوس فرما کر وہ فرمایا جو یہاں مذکور ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ مطلقہ بائنہ عورت پہلے خاوند کے نکاح میں دوبارہ اس وقت تک نہیں جا سکتی جب تک وہ دوسرا خاوند اس سے خوب جماع نہ کر لے اورپھر اپنی مرضی سے اسے طلاق دے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Ikrima (RA) : Rifa'a divorced his wife whereupon 'AbdurRahman bin Az-Zubair Al-Qurazi married her. 'Aisha (RA) said that the lady (came), wearing a green veil (and complained to her (Aisha) of her husband and showed her a green spot on her skin caused by beating). It was the habit of ladies to support each other, so when Allah's Apostle (ﷺ) came, 'Aisha (RA) said, "I have not seen any woman suffering as much as the believing women. Look! Her skin is greener than her clothes!" When 'AbdurRahman heard that his wife had gone to the Prophet, he came with his two sons from another wife. She said, "By Allah! I have done no wrong to him but he is impotent and is as useless to me as this," holding and showing the fringe of her garment, 'Abdur-Rahman said, "By Allah, O Allah's Apostle (ﷺ) ! She has told a lie! I am very strong and can satisfy her but she is disobedient and wants to go back to Rifa'a." Allah's Apostle (ﷺ) said, to her, "If that is your intention, then know that it is unlawful for you to remarry Rifa'a unless Abdur-Rahman has had sexual intercourse with you." Then the Prophet (ﷺ) saw two boys with 'Abdur-Rahman and asked (him), "Are these your sons?" On that 'AbdurRahman said, "Yes." The Prophet (ﷺ) said, "You claim what you claim (i.e.. that he is impotent)? But by Allah, these boys resemble him as a crow resembles a crow,"