مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5884.
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کےایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا آپ نے فرمایا: ”بچہ کہاں ہے“۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ”آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا: ۔ ۔ ۔ حسن بن علی ؓ کو بلاؤ۔“ چنانچہ حضرت حسن بن علی ؓ کھڑے ہوئے چل کر (آپ کی طرف) آ رہے تھے جبکہ ان کے گلے میں ایک خوشبودار (لونگ وغیرہ کا) ہار تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلائے تو حضرت حسن بن علی ؓ نے بھی اسی طرح ہاتھ پھیلائےآپ نے انہیں گلے لگا کر فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی مجھے حضرت حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا۔
تشریح:
(1) واقعی آلِ رسول سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔ ’’اے اللہ! ہمارے دل میں اللہ اور آل رسول کی محبت پیدا فرما۔‘‘ اس حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں خوشبودار ہار تھا، اس لیے بچوں کے گلے میں اس طرح کے خوشبودار ہار ڈالے جا سکتے ہیں، خواہ وہ پھولوں کے ہوں یا خوشبودار موتیوں کے ہوں۔ (2) عرب کے لوگ لونگ کے ہار بھی بچوں کو پہنانے کا رواج تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے بنو قینقاع کے بازار گئے وہاں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: ’’بچہ کدھر ہے؟‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نہلایا اور خوشبودار ہار پہنایا تو وہ دوڑ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغل گیر ہو گئے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2122)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5664
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5884
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5884
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5884
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
”سخاب“ وہ ہار ہیں جو مونگوں اور موتیوں سے تیار کیے جائیں۔ تیاری کے وقت ان مین خوشبو استعمال کی جاتی تھی اس وجہ سے وہ پہنتے وقت مہکتے رہتے تھے ان میں پھولوں اور کلیوں کے ہار بھی شامل ہیں وہ بھی بچوں کو پہنائے جاسکتے ہیں واللہ اعلم
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مدینہ طیبہ کےایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ تھا آپ واپس آئے تو میں بھی آپ کے ساتھ واپس آیا آپ نے فرمایا: ”بچہ کہاں ہے“۔ ۔ ۔ ۔ ؟ ”آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا: ۔ ۔ ۔ حسن بن علی ؓ کو بلاؤ۔“ چنانچہ حضرت حسن بن علی ؓ کھڑے ہوئے چل کر (آپ کی طرف) آ رہے تھے جبکہ ان کے گلے میں ایک خوشبودار (لونگ وغیرہ کا) ہار تھا۔ نبی ﷺ نے اپنے ہاتھ پھیلائے تو حضرت حسن بن علی ؓ نے بھی اسی طرح ہاتھ پھیلائےآپ نے انہیں گلے لگا کر فرمایا: ”اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور اس سے بھی محبت کر جو اس سے محبت کرے۔“ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے کہا: رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی مجھے حضرت حسن بن علی ؓ سے زیادہ پیارا نہیں تھا۔
حدیث حاشیہ:
(1) واقعی آلِ رسول سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے۔ ’’اے اللہ! ہمارے دل میں اللہ اور آل رسول کی محبت پیدا فرما۔‘‘ اس حدیث میں ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں خوشبودار ہار تھا، اس لیے بچوں کے گلے میں اس طرح کے خوشبودار ہار ڈالے جا سکتے ہیں، خواہ وہ پھولوں کے ہوں یا خوشبودار موتیوں کے ہوں۔ (2) عرب کے لوگ لونگ کے ہار بھی بچوں کو پہنانے کا رواج تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن چڑھے بنو قینقاع کے بازار گئے وہاں سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لے گئے، آپ نے فرمایا: ’’بچہ کدھر ہے؟‘‘ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں نہلایا اور خوشبودار ہار پہنایا تو وہ دوڑ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغل گیر ہو گئے۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2122)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے اسحاق بن ابراہیم حنظلی نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن آدم نے خبر دی، کہا ہم سے ورقاء بن عمر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ بن ابی یزید نے، ان سے نافع بن جبیر نے بیان ان سے ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ میں مدینہ کے بازاروں میں سے ایک بازار میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ آنحضرت ﷺ واپس ہوئے تو میں پھر آ پ کے ساتھ واپس ہوا، پھر آپ نے فرمایا بچہ کہاں ہے۔ یہ آپ نے تین مرتبہ فرمایا۔ حسن بن علی کو بلاؤ۔ حسن بن علی ؓ آ رہے تھے اور ان کی گردن میں (خوشبو دار لونگ وغیرہ کا) ہار پڑا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اپنا ہاتھ اس طرح پھیلایا کہ (آپ حضرت حسن ؓ کو گلے سے لگانے کے لیے) اور حضرت حسن ؓ نے بھی اپنا ہاتھ پھیلایا اور وہ آنحضرت ﷺ سے لپٹ گئے۔ پھر آپ نے فرمایا اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر اور ان سے بھی محبت کر جو اس سے محبت رکھیں۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کے بعد کوئی شخص بھی حضرت حسن بن علی ؓ سے زیادہ مجھے پیارا نہیں تھا۔
حدیث حاشیہ:
فی الواقع آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھنا شان ایمان ہے۔ یا اللہ! میرے دل میں بھی تیرے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے آل واولاد سے محبت پیدا کر۔ ومن مذھبي حب النبي وآله والناس فیما یعشقون مذاھب حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گلے میں ہار تھا اسی سے باب کا مضمون نکلتا ہے نابالغ بچوں کے لیے ایسے ہار وغیرہ پہنا دینا جائز ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Hurairah (RA) : I was with Allah's Apostle (ﷺ) in one of the Markets of Medina. He left (the market) and so did I. Then he asked thrice, "Where is the small (child)?" Then he said, "Call Al-Hasan bin 'Ali." So Al-Hasan bin 'Ali got up and started walking with a necklace (of beads) around his neck. The Prophet (ﷺ) stretched his hand out like this, and Al-Hasan did the same. The Prophet (ﷺ) embraced him and said, "O Allah! l love him, so please love him and love those who love him." Since Allah's Apostle (ﷺ) said that. nothing has been dearer to me than Al-Hasan.