باب: اس شخص کی دلیل جس نے فقط عصر اور فجر کے بعد نماز کو مکروہ رکھا ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Whoever did not dislike to offer optional prayers except after the compulsory prayers of 'Asr and Fajr only)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
اس کو حضرت عمر، ابن عمر، ابوسعید اور ابوہریرہؓ نے بیان کیا۔
589.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔
تشریح:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1629) دراصل امام بخاری ؒ کے نزدیک ممنوع اوقات صرف دو ہیں: ایک نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، دوسرا نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ان اوقات میں عین طلوع آفتاب اور عین غروب آفتاب بھی شامل ہیں، البتہ عین دوپہر کا وقت ممنوعہ اوقات میں شامل نہیں، حالانکہ اس کے متعلق متعدد احادیث ہیں، چنانچہ حدیث عمرو بن عبسہ صحیح مسلم میں، حدیث ابوہریرہ ابن ماجہ اور سنن بیہقی میں، حدیث صنابحی موطا امام مالک میں اور عقبہ بن عامر کی حدیث صحیح مسلم میں، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں، اس بنا پر ائمۂ ثلاثہ اور جمہور محدثین نے وقت استوا کو ممنوعہ اوقات میں شامل کیا ہے۔ امام مالک ؒ نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں: میں نے اہل علم کودیکھا ہے۔ وہ بڑے اہتمام سے دوپہر کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ انھوں نے حدیث صنابحی ذکر کی ہے، لیکن اسے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا خیال نہیں کیا، یا اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے اسے قابل حجت خیال نہیں کیا۔ امام شافعی نے دوپہر کے وقت کو اوقات ممنوعہ میں شمارکیا ہے لیکن وہ جمعے کے دن کو اس سے مستثنٰی کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جمعے کے دن جلدی جلدی مسجد میں آنے کے متعلق کہا ہے اور امام کے آنے تک نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور امام زوال آفتاب کے بعد آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عین دوپہر کا وقت نماز کےلیے ممنوعہ اوقات میں سے نہیں۔ (فتح الباري:85/2) لیکن جمعے کا یہ استثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے نزدیک متعدد احادیث کے پیش نظر ممنوعہ اوقات پانچ ہیں:٭نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک۔ ٭عین طلوع آفتاب۔ ٭نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ٭عین غروب آفتاب۔ ٭ عین دوپہر کا وقت جب سورج سر پر ہو۔ ان اوقات میں غیر سببی نوافل پڑھنا منع ہیں۔ والله أعلم. (2) بعض حضرات نے اوقات مکروہ کے درمیان کچھ فرق بیان کیا ہے، عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے اور عین طلوع وغروب کے وقت نماز میں مشغول ہونا حرام ہے، کیونکہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی، اگر حرام ہوتی تو آپ کیوں پڑھتے؟ گویا آپ کا عمل بیان جواز کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ عصر کے بعد نماز کے ممنوعہ وقت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک قضا اور سببی نماز کے علاوہ مطلق طور پر عصر کے بعد نماز جائز نہیں۔ البتہ امام شافعی ؒ نے ظہر کی سنت رہ جانے کی صورت میں عصر کے بعد پڑھنے کی اجازت دی ہے، تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، متعدد تابعین اور بہت سے علماء کے نزدیک نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند، سفید اور چمکدار ہو، نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ان کے ہاں عصر کے بعد نماز کی نہی مطلق نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے ساتھ مقید ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر جبکہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:574) اس کے متعلق تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ (3) ان ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اوقات اصلیہ کے اعتبار سے ہے۔ ان کےعلاوہ بھی چندایک مواقع پر نوافل میں مصروف ہونا منع ہے، مثلاً: ٭جب نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے۔ ٭ جب امام خطبے کےلیے منبر پر چڑھ جائے۔ (الا یہ کہ کوئی اسی وقت مسجد میں آیا ہو) ٭ جب فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو۔ ٭ مالکیہ کے نزدیک جمعے کےبعد لوگوں کے روزانہ ہونے تک۔ ٭احناف کے نزدیک نماز مغرب سے پہلے، اگرچہ حدیث میں اس کا بین ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري: 84/2)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
585
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
589
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
589
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
589
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
تمہید باب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث (581)، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت:(585)،حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث (586) اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث(588) پہلے گزر چکی ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ ممنوع اوقات کے سلسلے میں ان حضرات سے مروی احادیث میں استوائے شمس کے وقت نماز کی ممانعت کا کوئی ذکر نہیں ہے،لہٰذا ممنوع اوقات میں اس کا اعتبار نہیں ہوگا لیکن جن حضرات سے استوائے شمس کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت مروی ہے وہ انتہائی دیانتدار اور ثقہ ہیں،اس لیے ان کا بیان کردہ اضافہ قبول ہوگا۔(فتح الباری:2/84)
اس کو حضرت عمر، ابن عمر، ابوسعید اور ابوہریرہؓ نے بیان کیا۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں انہی اوقات میں نماز ادا کرتا ہوں جن میں میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے، البتہ میں کسی کو نہیں روکتا وہ دن اور رات کے جس حصے میں چاہیں نماز پڑھیں لیکن طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے کی کوشش نہ کریں۔
حدیث حاشیہ:
(1) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرماتے تھے۔ (صحیح البخاري، الحج، حدیث:1629) دراصل امام بخاری ؒ کے نزدیک ممنوع اوقات صرف دو ہیں: ایک نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک، دوسرا نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ان اوقات میں عین طلوع آفتاب اور عین غروب آفتاب بھی شامل ہیں، البتہ عین دوپہر کا وقت ممنوعہ اوقات میں شامل نہیں، حالانکہ اس کے متعلق متعدد احادیث ہیں، چنانچہ حدیث عمرو بن عبسہ صحیح مسلم میں، حدیث ابوہریرہ ابن ماجہ اور سنن بیہقی میں، حدیث صنابحی موطا امام مالک میں اور عقبہ بن عامر کی حدیث صحیح مسلم میں، جس کے الفاظ یہ ہیں کہ عین دوپہر کے وقت نماز پڑھنا منع ہے۔ کچھ ضعیف احادیث بھی ہیں، اس بنا پر ائمۂ ثلاثہ اور جمہور محدثین نے وقت استوا کو ممنوعہ اوقات میں شامل کیا ہے۔ امام مالک ؒ نے اس کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، فرماتے ہیں: میں نے اہل علم کودیکھا ہے۔ وہ بڑے اہتمام سے دوپہر کے وقت نماز پڑھا کرتے تھے۔ انھوں نے حدیث صنابحی ذکر کی ہے، لیکن اسے ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل اعتنا خیال نہیں کیا، یا اہل مدینہ کے عمل کی وجہ سے اسے قابل حجت خیال نہیں کیا۔ امام شافعی نے دوپہر کے وقت کو اوقات ممنوعہ میں شمارکیا ہے لیکن وہ جمعے کے دن کو اس سے مستثنٰی کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ شریعت نے جمعے کے دن جلدی جلدی مسجد میں آنے کے متعلق کہا ہے اور امام کے آنے تک نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور امام زوال آفتاب کے بعد آتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عین دوپہر کا وقت نماز کےلیے ممنوعہ اوقات میں سے نہیں۔ (فتح الباري:85/2) لیکن جمعے کا یہ استثنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ ہمارے نزدیک متعدد احادیث کے پیش نظر ممنوعہ اوقات پانچ ہیں:٭نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک۔ ٭عین طلوع آفتاب۔ ٭نماز عصر کے بعد غروب آفتاب تک۔ ٭عین غروب آفتاب۔ ٭ عین دوپہر کا وقت جب سورج سر پر ہو۔ ان اوقات میں غیر سببی نوافل پڑھنا منع ہیں۔ والله أعلم. (2) بعض حضرات نے اوقات مکروہ کے درمیان کچھ فرق بیان کیا ہے، عصر اور فجر کے بعد نماز پڑھنا مکروہ ہے اور عین طلوع وغروب کے وقت نماز میں مشغول ہونا حرام ہے، کیونکہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز پڑھی تھی، اگر حرام ہوتی تو آپ کیوں پڑھتے؟ گویا آپ کا عمل بیان جواز کے لیے ہے۔ واضح رہے کہ عصر کے بعد نماز کے ممنوعہ وقت کی تحدید میں علماء کا اختلاف ہے، چنانچہ جمہور فقہاء کے نزدیک قضا اور سببی نماز کے علاوہ مطلق طور پر عصر کے بعد نماز جائز نہیں۔ البتہ امام شافعی ؒ نے ظہر کی سنت رہ جانے کی صورت میں عصر کے بعد پڑھنے کی اجازت دی ہے، تاہم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت، متعدد تابعین اور بہت سے علماء کے نزدیک نماز عصر کے بعد جب تک سورج بلند، سفید اور چمکدار ہو، نفلی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ ان کے ہاں عصر کے بعد نماز کی نہی مطلق نہیں بلکہ سورج زرد ہونے کے ساتھ مقید ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر جبکہ سورج سفید، صاف اور بلند ہو۔ (سنن النسائي، المواقیت، حدیث:574) اس کے متعلق تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔ (3) ان ممنوعہ اوقات میں نماز پڑھنے کی ممانعت اوقات اصلیہ کے اعتبار سے ہے۔ ان کےعلاوہ بھی چندایک مواقع پر نوافل میں مصروف ہونا منع ہے، مثلاً: ٭جب نماز کے لیے تکبیر کہہ دی جائے۔ ٭ جب امام خطبے کےلیے منبر پر چڑھ جائے۔ (الا یہ کہ کوئی اسی وقت مسجد میں آیا ہو) ٭ جب فرض نماز کی جماعت ہورہی ہو۔ ٭ مالکیہ کے نزدیک جمعے کےبعد لوگوں کے روزانہ ہونے تک۔ ٭احناف کے نزدیک نماز مغرب سے پہلے، اگرچہ حدیث میں اس کا بین ثبوت ملتا ہے جس کی تفصیل ہم آئندہ بیان کریں گے۔ (فتح الباري: 84/2)
ترجمۃ الباب:
اس بات کو حضرت عمر، ابن عمر، ابوسعید خدری اور حضرت ابوہریرہ ؓ نے بیان کیا ہے۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سے کہا، انھوں نے نافع سے، انھوں نے ابن عمر ؓ سے، آپ نے فرمایا کہ جس طرح میں نے اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھتے دیکھا۔ میں بھی اسی طرح نماز پڑھتا ہوں۔ کسی کو روکتا نہیں۔ دن اور رات کے جس حصہ میں جی چاہے نماز پڑھ سکتا ہے۔ البتہ سورج کے طلوع اور غروب کے وقت نماز نہ پڑھا کرو۔
حدیث حاشیہ:
عین زوال کے وقت بھی نماز پڑھنے کی ممانعت صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ مگرمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت امام بخاری ؒ کو کوئی ایسی روایت اس باب میں نہیں ملی جو ان کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA): I pray as I saw my companions praying. I do not forbid praying at any time during the day or night except at sunset and sunrise.