مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5893.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مونچھیں پست کراؤ اور ڈاڑھی خوب بڑھاؤ۔“
تشریح:
(1) داڑھی بڑھانے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں: مثلاً: وفروا، أوفروا، أعفوا، أرجئو اور أوفوا۔ ان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تمام الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي: 129/1) داڑھی شعائر اسلام سے ہے جس سے ایک مسلمان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، مثلاً: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بڑھانے کے متعلق حکم دیا ہے آپ کا حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ پایا جائے۔ ٭ اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو یہودونصاریٰ اور مشرکین و مجوس سے ہم نوائی قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے: ٭ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5892) ٭ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔ (مسند أحمد: 264/5) ٭ مجوسی لوگوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑو اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح ابن حبان: 408/1) ٭ شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خلقتِ الٰہیہ میں تبدیلی پر آمادہ کرتا ہے۔ (النساء: 114) داڑھی سے چھیڑچھاڑ کرنا تخلیق الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ ٭ داڑھی کا بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 604 (261)) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ اسے فطرت پر رہنے دیا جائے، اس میں کانٹ چھانٹ کر کے غیر فطری عمل نہ کیا جائے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا جبکہ داڑھی منڈوانے سے عورتوں کی مشابہت ہوتی ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔ (3) داڑھی منڈوانا ایک برا کام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو ایرانی باشندوں کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جنہوں نے داڑھی منڈوا رکھی تھی۔ (4) داڑھی رکھنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے۔ ان حضرات کے جتنے بھی پیروکار ہیں ان میں سے کوئی بھی داڑھی منڈوانے والا نہیں۔ (5) گناہ کرتے وقت ہر انسان اپنے اندر ایک اذیت محسوس کرتا ہے لیکن داڑھی کی مخالفت ایسا جرم ہے کہ اس کے کرنے پر انسان خوش ہوتا ہے اور اسے اپنے لیے باعث زینت خیال کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اس کی توہین کیا ہو سکتی ہے کہ داڑھی منڈوانے والا ان مقدس بالوں کو گندی نالی میں پھینک دیتا ہے۔ (6) مندرجہ بالا امور کے پیش نظر ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ داڑھی کے بغیر رہے اور اسے منڈوا کر اپنے دشمن شیطان کو خوش کرے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کے نبوی حکم سے ایک صورت مستثنیٰ ہے کہ جب عورت کو داڑھی کے بال نکل آئیں تو اسے منڈوانا مستحب ہے، اسی طرح اگر داڑھی بچہ یا مونچھیں اگ آئیں تو انہیں بھی صاف کرا دیا جائے۔ (فتح الباري: 431/10) (7) کچھ اہل علم داڑھی کاٹنے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کے طول و عرض سے زائد بال لے لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2762) اس کے متعلق حافظ ابن حجر، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور اس میں ایک راوی عمر بن ہارون ہے جسے مطلق طور پر ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (کتاب میں حوالہ موجود نہیں) اسی طرح حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ حضرات عام طور پر یا خاص مواقع پر ایک مٹھی سے زائد داڑھی اور رخساروں کے بال کٹوا دیتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری حدیث: 5892 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے طبقات ابن سعد: 4/334 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ: 4/85 میں اس قسم کی روایات موجود ہیں، حالانکہ ان تینوں حضرات سے داڑھی بڑھانے کے متعلق امر نبوی بھی منقول ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری، حدیث: 5892، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم، الطہارۃ، حدیث: 603 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مجمع الزوائد: 5/169 میں روایات آئی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک قابل عمل ان حضرات کی روایت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔ بہرحال کانٹ چھانٹ کے بغیر پوری داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنا حلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رکھتے ہیں اور اس فطرتی حسن سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5673
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5893
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5893
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5893
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
اعفاء کے معنی زیادہ ہونا ہیں۔ اس میں سبب کو مسبب کی جگہ پر رکھا گیا ہے کیونکہ اس کے لغوی معنی ترک کے ہیں۔ جب داڑھی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی تو وہ زیادہ ہو گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے داڑھی کے زیادہ ہونے مناسبت سے آیت کریمہ میں آنے والے ایک لفظ کی لغوی تفسیر کی ہے۔ بہرحال إعفاء اللحية سے مراد داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دینا ہے تاکہ وہ زیادہ ہو جائے۔ واللہ اعلم
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مونچھیں پست کراؤ اور ڈاڑھی خوب بڑھاؤ۔“
حدیث حاشیہ:
(1) داڑھی بڑھانے کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوتے ہیں: مثلاً: وفروا، أوفروا، أعفوا، أرجئو اور أوفوا۔ ان کے متعلق امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان تمام الفاظ کے ایک ہی معنی ہیں کہ داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے۔ (شرح صحیح مسلم للنووي: 129/1) داڑھی شعائر اسلام سے ہے جس سے ایک مسلمان کی شناخت اور پہچان ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف طریقوں سے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے، مثلاً: ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بڑھانے کے متعلق حکم دیا ہے آپ کا حکم وجوب کے لیے ہوتا ہے الا یہ کہ کوئی قرینہ صارفہ پایا جائے۔ ٭ اس سے چھیڑ چھاڑ کرنے کو یہودونصاریٰ اور مشرکین و مجوس سے ہم نوائی قرار دیا ہے اور ان کی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے: ٭ مشرکین کی مخالفت کرو، داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5892) ٭ یہود و نصاریٰ کی مخالفت کرو، اپنی داڑھی بڑھاؤ اور مونچھیں چھوٹی کرو۔ (مسند أحمد: 264/5) ٭ مجوسی لوگوں کی مخالفت کرو، داڑھی کو اپنی حالت پر چھوڑو اور مونچھیں پست کراؤ۔ (صحیح ابن حبان: 408/1) ٭ شیطان کا ایک حربہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو خلقتِ الٰہیہ میں تبدیلی پر آمادہ کرتا ہے۔ (النساء: 114) داڑھی سے چھیڑچھاڑ کرنا تخلیق الٰہی میں تبدیلی کرنا ہے جس سے ہمیں منع کیا گیا ہے۔ ٭ داڑھی کا بڑھانا امور فطرت سے ہے جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 604 (261)) اس حدیث کا تقاضا ہے کہ اسے فطرت پر رہنے دیا جائے، اس میں کانٹ چھانٹ کر کے غیر فطری عمل نہ کیا جائے۔ (2) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا جبکہ داڑھی منڈوانے سے عورتوں کی مشابہت ہوتی ہے۔ اس سے محفوظ رہنے کا یہی طریقہ ہے کہ اسے اپنی حالت پر رہنے دیا جائے۔ (3) داڑھی منڈوانا ایک برا کام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو ایرانی باشندوں کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جنہوں نے داڑھی منڈوا رکھی تھی۔ (4) داڑھی رکھنا صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی سنت نہیں بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے۔ ان حضرات کے جتنے بھی پیروکار ہیں ان میں سے کوئی بھی داڑھی منڈوانے والا نہیں۔ (5) گناہ کرتے وقت ہر انسان اپنے اندر ایک اذیت محسوس کرتا ہے لیکن داڑھی کی مخالفت ایسا جرم ہے کہ اس کے کرنے پر انسان خوش ہوتا ہے اور اسے اپنے لیے باعث زینت خیال کرتا ہے، اس سے بڑھ کر اس کی توہین کیا ہو سکتی ہے کہ داڑھی منڈوانے والا ان مقدس بالوں کو گندی نالی میں پھینک دیتا ہے۔ (6) مندرجہ بالا امور کے پیش نظر ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ داڑھی کے بغیر رہے اور اسے منڈوا کر اپنے دشمن شیطان کو خوش کرے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ داڑھی بڑھانے کے نبوی حکم سے ایک صورت مستثنیٰ ہے کہ جب عورت کو داڑھی کے بال نکل آئیں تو اسے منڈوانا مستحب ہے، اسی طرح اگر داڑھی بچہ یا مونچھیں اگ آئیں تو انہیں بھی صاف کرا دیا جائے۔ (فتح الباري: 431/10) (7) کچھ اہل علم داڑھی کاٹنے کے متعلق نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ وہ اس سلسلے میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کے طول و عرض سے زائد بال لے لیتے تھے۔ (جامع الترمذي، الأدب، حدیث: 2762) اس کے متعلق حافظ ابن حجر، امام بخاری رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ یہ حدیث منکر ہے اور اس میں ایک راوی عمر بن ہارون ہے جسے مطلق طور پر ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (کتاب میں حوالہ موجود نہیں) اسی طرح حضرت ابن عمر، حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ یہ حضرات عام طور پر یا خاص مواقع پر ایک مٹھی سے زائد داڑھی اور رخساروں کے بال کٹوا دیتے تھے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری حدیث: 5892 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے طبقات ابن سعد: 4/334 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مصنف ابن ابی شیبہ: 4/85 میں اس قسم کی روایات موجود ہیں، حالانکہ ان تینوں حضرات سے داڑھی بڑھانے کے متعلق امر نبوی بھی منقول ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری، حدیث: 5892، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم، الطہارۃ، حدیث: 603 اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مجمع الزوائد: 5/169 میں روایات آئی ہیں۔ اس بنا پر ہمارے نزدیک قابل عمل ان حضرات کی روایت نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت ہے۔ بہرحال کانٹ چھانٹ کے بغیر پوری داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو اپنا حلیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق رکھتے ہیں اور اس فطرتی حسن سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتے۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا ہمیں عبدہ نے خبر دی، انہیں عبیداللہ بن عمر نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اورداڑھی کو بڑھاؤ۔
حدیث حاشیہ:
داڑھی رکھنا تمام انبیاءکرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ مبارک باد ہیں جو لوگ اپنا حلیہ سنت نبوی کے مطابق بنائیں۔ آج کی دنیا میں مردوں کو داڑھی سے اس قدر نفرت ہو گئی ہے کہ بیشتر تعداد میں یہی عادت جڑ پکڑ چکی ہے حالانکہ حکمت اور سائنس کی رو سے بھی مردوں کے لیے داڑھی کا رکھنا بہت ہی مفید ہے۔ کتب متعلقہ ملاحظہ ہوں۔ مومنوں کے لیے یہی کافی ہے کہ ان کے محبوب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ibn 'Umar (RA) : Allah's Apostle (ﷺ) said, "Cut the moustaches short and leave the beard (as it is)."