Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The woman who gets herself tattooed)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5948.
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ”اللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔“ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟
تشریح:
(1) سوئی یا کسی نوک دار چیز سے جسم کے کسی حصے کو چھید کر کوئی نام یا کسی کی تصویر بنا کر وہاں سرمہ یا نیل وغیرہ چھڑکا جاتا ہے، پھر زخم مندمل ہونے کے بعد وہ نام یا تصویر مستقل طور پر باقی رہتی ہے۔ عربی زبان میں اس عمل کو وشم کہا جاتا ہے۔ یہ عمل کرنا اور کرانا شرعاً حرام ہے۔
(2) اگر وشم کے بغیر کسی مرض کا علاج ممکن نہ ہو تو اس عمل کے جائز ہونے کی گنجائش ہے۔ یاد رہے کہ اس عمل کی اجرت حرام ہے کیونکہ جو کام حرام ہو اس کی اجرت بھی حرام ہوتی ہے۔ اگر کسی زندہ یا مرنے والے شخص کے جسم پر اس طرح کا نشان ہو تو اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اسے باقی رہنے دیا جائے، البتہ دونوں صورتوں میں توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5725
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5948
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5948
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5948
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ”اللہ تعالٰی نے سرمہ بھرنے والی، سرمہ بھروانے والی، بھویں باریک کروانے والی، خوبصورتی کے لیے دانت کشادہ کرنے والی، جو اللہ کی خلقت کو بدلنے والی ہیں ان تمام عورتوں پر لعنت کی ہے۔“ پھر میں بھی کیوں نہ ان عورتوں پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت کی ہے اور یہ اللہ کی کتاب میں بھی موجود ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) سوئی یا کسی نوک دار چیز سے جسم کے کسی حصے کو چھید کر کوئی نام یا کسی کی تصویر بنا کر وہاں سرمہ یا نیل وغیرہ چھڑکا جاتا ہے، پھر زخم مندمل ہونے کے بعد وہ نام یا تصویر مستقل طور پر باقی رہتی ہے۔ عربی زبان میں اس عمل کو وشم کہا جاتا ہے۔ یہ عمل کرنا اور کرانا شرعاً حرام ہے۔
(2) اگر وشم کے بغیر کسی مرض کا علاج ممکن نہ ہو تو اس عمل کے جائز ہونے کی گنجائش ہے۔ یاد رہے کہ اس عمل کی اجرت حرام ہے کیونکہ جو کام حرام ہو اس کی اجرت بھی حرام ہوتی ہے۔ اگر کسی زندہ یا مرنے والے شخص کے جسم پر اس طرح کا نشان ہو تو اس کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی نقصان کا خطرہ ہو تو اسے باقی رہنے دیا جائے، البتہ دونوں صورتوں میں توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔ واللہ أعلم
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سےعلقمہ نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہ گودنے پر اور گدوانے والیوں پر، بال اکھاڑنے والیوں پر اور خوبصورتی کے لیے دانتوں کے درمیان کشادگی کرنے والیوں پر جو اللہ کی پیدائش میں تبدیلی کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے پھرمیں بھی کیوں نہ ان پر لعنت بھیجوں جن پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت بھیجی ہے اور وہ کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔
حدیث حاشیہ:
آیت شریف وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا (الحشر: 7) کی طرف اشارہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو حکم فرمائیں اسے بجا لاؤ اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ اس کے تحت اجمالی طور پر سارے اوامر اور نواہی داخل ہیں آج کا فیشن جو مردوں اور عورتوں نے اپنایا ہے جو عریانیت کا مرقع ہے وہ سب اس لعنت کے تحت داخل ہے۔ سند میں مذکور علقمہ بن وقاص لیثی ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں پیدا ہوئے اورغزوئہ خندق میں شریک ہوئے، عبدالملک بن مروان کے عہد میں وفات پائے رحمہ اللہ تعالیٰ۔ کتاب اللہ میں مذکور ہونے سے وہ آیت مراد ہے جس میں ہے وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایت تم کو دیں اسے قبول کر لو اور جن کاموں سے آپ منع فرمائیں ان سے رک جاؤ۔ اس میں جملہ اوامر اور نواہی داخل ہیں حدیث میں مذکورہ نواہی بھی اسی آیت کے ذیل میں ہیں۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah : Allah has cursed those women who practise tattooing and those who get it done for themselves, and those who remove hair from their faces, and those who artificially create spaces between their teeth to look beautiful, such women as alter the features created by Allah. Why should I not then curse those whom Allah's Apostle (ﷺ) has cursed and that is in Allah's Book?