Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Angels do not enter a house in which there are pictures)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5960.
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل ؑ نے نبی ﷺ کے ہاں آنے کا وعدہ کیا لیکن اس میں تاخیر کر دی حتیٰ کہ نبی ﷺ پر بہت گراں گزرا۔ پھر نبی ﷺ باہر تشریف لائے تو حضرت جبرئیل ؑ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے تاخیر کی شکایت کی تو انہوں نے کہا : ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویر یا کتا ہو۔
تشریح:
(1) اس روایت کی تفصیل ایک دوسری حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور مجھے کہا: میں گزشتہ رات آپ کے پاس آیا تھا مگر اندر آنے سے میرے لیے یہ امر مانع تھا کہ دروازے پر تصویریں تھیں اور گھر میں مورتیوں والا پردہ تھا اور وہاں کتا بھی تھا۔ آپ گھر میں تصویر کے متعلق حکم دیں کہ اس کا سر کاٹ دیا جائے اور وہ درخت کی مانند ہو جائے اور پردے کے متعلق حکم دیں کہ اسے کاٹ کر دو تکیے بنا لیے جائیں جو پھینکے جائیں اور انہیں پاؤں تلے روندا جائے اور کتے کے متعلق حکم دیں کہ اسے نکال باہر کیا جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایات کے مطابق عمل کیا۔ یہ کتا حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا تھا جو ان کے تخت کے نیچے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے نکال باہر کیا گیا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4158) (2) ایک حدیث میں ہے کہ چارپائی کے نیچے کتے کا بچہ تھا، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’یہ کتا یہاں کب داخل ہوا؟‘‘ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ کے حکم سے اسے نکال دیا گیا۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5511 (2104)) (3) ایک منکر حدیث نے کسی اہل حدیث سے کہا کہ جب کتا رکھنے سے اس گھر میں فرشتے نہیں آتے تو ہم ہمیشہ ایک کتا اپنے پاس رکھیں گے تاکہ موت کا فرشتہ ہمارے پاس ہی نہ آئے۔ اہل حدیث نے جواب دیا: تمہاری جان نکالنے کے لیے وہ فرشتہ آئے گا جو کتوں کی جان نکالتا ہے۔ اس پر وہ لاجواب ہو گیا۔
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5736
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5960
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5960
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5960
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک مرتبہ حضرت جبرئیل ؑ نے نبی ﷺ کے ہاں آنے کا وعدہ کیا لیکن اس میں تاخیر کر دی حتیٰ کہ نبی ﷺ پر بہت گراں گزرا۔ پھر نبی ﷺ باہر تشریف لائے تو حضرت جبرئیل ؑ سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے تاخیر کی شکایت کی تو انہوں نے کہا : ہم اس گھر میں نہیں جاتے جس میں تصویر یا کتا ہو۔
حدیث حاشیہ:
(1) اس روایت کی تفصیل ایک دوسری حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور مجھے کہا: میں گزشتہ رات آپ کے پاس آیا تھا مگر اندر آنے سے میرے لیے یہ امر مانع تھا کہ دروازے پر تصویریں تھیں اور گھر میں مورتیوں والا پردہ تھا اور وہاں کتا بھی تھا۔ آپ گھر میں تصویر کے متعلق حکم دیں کہ اس کا سر کاٹ دیا جائے اور وہ درخت کی مانند ہو جائے اور پردے کے متعلق حکم دیں کہ اسے کاٹ کر دو تکیے بنا لیے جائیں جو پھینکے جائیں اور انہیں پاؤں تلے روندا جائے اور کتے کے متعلق حکم دیں کہ اسے نکال باہر کیا جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہدایات کے مطابق عمل کیا۔ یہ کتا حضرت حسن یا حضرت حسین رضی اللہ عنہما کا تھا جو ان کے تخت کے نیچے تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو اسے نکال باہر کیا گیا۔ (سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4158) (2) ایک حدیث میں ہے کہ چارپائی کے نیچے کتے کا بچہ تھا، آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’یہ کتا یہاں کب داخل ہوا؟‘‘ انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ آپ کے حکم سے اسے نکال دیا گیا۔ (صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5511 (2104)) (3) ایک منکر حدیث نے کسی اہل حدیث سے کہا کہ جب کتا رکھنے سے اس گھر میں فرشتے نہیں آتے تو ہم ہمیشہ ایک کتا اپنے پاس رکھیں گے تاکہ موت کا فرشتہ ہمارے پاس ہی نہ آئے۔ اہل حدیث نے جواب دیا: تمہاری جان نکالنے کے لیے وہ فرشتہ آئے گا جو کتوں کی جان نکالتا ہے۔ اس پر وہ لاجواب ہو گیا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے سالم نے اور ان سے ان کے والد (ابن عمر ؓ ) نے بیان کیا کہ ایک وقت پر جبرئیل ؑ نے نبی کریم ﷺ کے یہاں آنے کا وعدہ کیا لیکن آنے میں دیر ہوئی۔ اس وقت پر نہیں آئے تو آنحضرت ﷺ سخت پریشان ہوئے پھر آپ باہر نکلے تو جبرئیل ؑ سے ملا قات ہوئی۔ آنحضرت ﷺ ان سے شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم (فرشتے) کسی ایسے گھر میں نہیں جاتے جس میں مورت یا کتا ہو۔
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے جب وقت گزر گیا اور جبرئیل علیہ السلام نہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کا وعدہ خلاف نہیں ہو سکتا نہ اس کے فرشتوں کا پھر دیکھا تو چار پائی کے تلے ایک کتے کا پلا پڑا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ! یہ پلا کب آیا انہوں نے کہا کہ مجھ کو اللہ کی قسم خبر نہیں آخر اسے وہاں سے نکالا۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Salim's father (RA) : Once Gabriel (ؑ) promised to visit the Prophet (ﷺ) but he delayed and the Prophet (ﷺ) got worried about that. At last he came out and found Gabriel (ؑ) and complained to him of his grief (for his delay). Gabriel (ؑ) said to him, "We do not enter a place in which there is a picture or a dog."