Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: Whoever does not enter a house having a picture in it)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
5961.
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس میں تصویریں تھیں جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ آئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے جب آپ کے چہرہ انور پر ناراضی کے اثرات دیکھے تو عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ تعالٰی کے حضور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ گدا کیسا ہے؟“ میں نے عرض کی: یہ اس لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور نیک لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً اس قسم کی تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا تھا اس میں روح ڈالو۔“ نیز فرمایا: ”جس گھر میں تصویر ہوتی ہے وہاں فرشتے نہیں آتے۔“
تشریح:
(1) تصاویر بنانا اور رکھنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں داخل نہیں ہوئے جس میں تصاویر تھیں۔ ہمیں اس واقعے سے سبق لینا چاہیے۔ زہد و تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ جس مجلس یا مقام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی سامان ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ (2) اس حدیث کی رو سے جس نکاح کی مجلس میں اختلاط مرد و زن ہو اور وہاں ویڈیو تیار کی جا رہی ہو اور زندگی کے حسین لمحات کو بطور یادگار محفوظ کیا جا رہا ہو، ایسی مجالس کا اہل علم کو بائیکاٹ کرنا چاہیے، اسی طرح جس گھر میں ٹیلی ویژن یا وی سی آر یا کیبل کے ذریعے سے فحش مناظر دکھائے جا رہے ہوں، ان کا بھی یہی حکم ہے۔ ایسی چیزوں کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ العیاذ باللہ
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5737
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5961
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5961
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5961
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس میں تصویریں تھیں جب اسے رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہ آئے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ نے جب آپ کے چہرہ انور پر ناراضی کے اثرات دیکھے تو عرض کی: اللہ کے رسول! میں اللہ تعالٰی کے حضور اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا گناہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ”یہ گدا کیسا ہے؟“ میں نے عرض کی: یہ اس لیے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور نیک لگائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”یقیناً اس قسم کی تصویریں بنانے والوں کو قیامت کے دن سخت ترین عذاب دیا جائے گا۔ اور ان سے کہا جائے گا۔ جو تم نے بنایا تھا اس میں روح ڈالو۔“ نیز فرمایا: ”جس گھر میں تصویر ہوتی ہے وہاں فرشتے نہیں آتے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) تصاویر بنانا اور رکھنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں داخل نہیں ہوئے جس میں تصاویر تھیں۔ ہمیں اس واقعے سے سبق لینا چاہیے۔ زہد و تقویٰ کا تقاضا یہی ہے کہ جس مجلس یا مقام میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مبنی سامان ہو وہاں نہیں جانا چاہیے۔ (2) اس حدیث کی رو سے جس نکاح کی مجلس میں اختلاط مرد و زن ہو اور وہاں ویڈیو تیار کی جا رہی ہو اور زندگی کے حسین لمحات کو بطور یادگار محفوظ کیا جا رہا ہو، ایسی مجالس کا اہل علم کو بائیکاٹ کرنا چاہیے، اسی طرح جس گھر میں ٹیلی ویژن یا وی سی آر یا کیبل کے ذریعے سے فحش مناظر دکھائے جا رہے ہوں، ان کا بھی یہی حکم ہے۔ ایسی چیزوں کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرنا اللہ کے عذاب کو دعوت دینا ہے۔ العیاذ باللہ
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے قاسم بن محمد نے اور انہیں نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ ؓ نے خبر دی کہ انہوں نے ایک گدا خریدا جس میں مورتیں تھیں جب رسول اللہ ﷺ نے اسے دیکھا تو آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر نہیں آئے۔ میں آپ کے چہرے سے ناراضگی پہچان گئی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اللہ سے اس کے رسول کے سامنے توبہ کرتی ہوں، میں نے کیا غلطی کی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ گدا کیسا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے ہی اسے خریدا ہے تاکہ آپ اس پر بیٹھیں اور ٹیک لگائیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ان مورتوں کے بنانے والوں کو قیامت کے دن عذاب دیا جائے گا اور ان سے کہا جائے گا کہ جو تم نے پیدا کیا ہے اب ان میں جان بھی ڈالو اور آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جس گھر میں مورت ہوتی ہے اس میں (رحمت کے) فرشتے نہیں داخل ہوتے۔
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ جاندار چیزوں کی مورتوں والے گھر میں داخل نہیں ہوتے۔ بظاہر یہ اس حدیث کے خلاف ہے جس میں یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے گھر میں ایک پردہ لٹکایا تھا اس میں مورتیں تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ادھر نماز پڑھ رہے تھے اورتطبیق یوں ہو سکتی ہے کہ شاید پردہ پر بے جان چیزوں کی مورتیں ہوں اور باب کی حدیث کا تعلق جاندار کی مورتوں سے ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated ' Aisha (RA) : (the wife of the Prophet) I bought a cushion having pictures on it. When Allah's Apostle (ﷺ) saw it, he stopped at the gate and did not enter. I noticed the signs of hatred (for that) on his face! I said, "O Allah's Apostle (ﷺ) ! I turn to Allah and His Apostle (ﷺ) in repentance! What sin have I committed?" He said, "What about this cushion?" I said, 'I bought it for you to sit on and recline on." Allah's Apostle (ﷺ) said, "The makers of these pictures will be punished (severely) on the Day of Resurrection and it will be said to them, 'Make alive what you have created.'" He added, "Angels do not enter a house in which there are pictures."