باب: جانور کے مالک کا دوسرے کو سواری پر اپنے آگے بٹھانا جائز ہے
)
Sahi-Bukhari:
Dress
(Chapter: The mounting of the owner of animal and somebody else in front of him)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
بعض نے کہا ہے کہ جانور کے مالک کو جانور پر آگے بیٹھنے کا زیادہ حق ہے ۔ البتہ اگر وہ کسی دوسرے کو ( آگے بیٹھنے کی ) اجازت دے تو جائز ہے ۔
5966.
حضرت ایوب سے روایت ہے کہ عکرمہ کے پاس ذکر کیا گیا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا بہت معیوب ہے تو انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جبکہ قثم کو آگے اور فضل کو اپنے پیچھے بٹھائے ہوئے تھے یا اس کے برعکس فضل کو آگے اور قثم کو پیچھے بٹھایا تھا۔ اب ان میں سے کون برا ہے اور کون اچھا ہے؟
تشریح:
(1) حضرت عکرمہ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا انتہائی معیوب ہے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کا حوالہ دیا اور اس موقف کی تردید کی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سواری کے آگے بیٹھنے کا حق تو مالک کو ہے ہاں اگر وہ خود اس حق سے دستبردار ہو جائے تو کوئی دوسرا بھی آگے بیٹھ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قثم یا حضرت فضل کو آگے بٹھایا تھا۔ اس حدیث سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے، ایک آدمی گدھے پر سوار وہاں سے گزرا تو اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ سوار ہو جائیں اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے ہاں، اگر تو اگلا حصہ میرے لیے خوشی سے مخصوص کر دے تو ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہا: میں نے آپ کے لیے کر دیا ہے تو آپ آگے سوار ہو گئے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2572) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مالک، اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا اس لیے زیادہ حق دار ہے کہ آگے بیٹھنا انسان کے لیے باعث شرف ہے اور وہ مالک ہونے کی حیثیت سے اس شرف کا زیادہ حق دار ہے، پھر اسے راستے کے نشیب و فراز کا علم ہوتا ہے اور جانور کب اور کیسے موڑنا ہے یہ تمام خدمات آگے بیٹھ کر ہی سر انجام دی جا سکتی ہیں۔ (فتح الباري: 10/488)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5742
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5966
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
5966
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
5966
تمہید کتاب
عربوں کے ہاں ایک محاورہ ہے کہ الناس باللباس یعنی لوگوں کا ظاہری وقار لباس سے وابستہ ہے اور اس سے ان کی پہچان ہوتی ہے۔ لیکن کچھ لوگ دوسروں کو ننگے رہنے کی ترغیب دیتے اور اسے اللہ تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ خیال کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس فکر کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: "اے اولاد آدم! بے شک ہم نے تمہارے لیے ایک ایسا لباس پیدا کیا ہے جو تمہاری ستر پوشی اور زینت کا باعث ہے اور تقوے کا لباس تو سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔" (الاعراف: 7/26) اس آیت کریمہ میں لباس کے دو بڑے فائدے بیان ہوئے ہیں: ایک یہ کہ یہ انسان کی شرمگاہ کو چھپاتا ہے اور دوسرا یہ کہ یہ انسان کے لیے موجب زینت ہے لیکن کچھ لوگ اس کے برعکس ننگ دھڑنگ رہنے اور میلا کچیلا لباس پہننے کو رہبانیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ چونکہ دین اسلام دین فطرت ہے، اس لیے وہ کھلے بندوں اس طرح کی رہبانیت کا انکار کرتا ہے بلکہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح کے معاشرے میں بے حیائی، برائی فحاشی اور بے غیرتی پھیلتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں مہلک بیماریاں ان کا مقدر بنتی ہیں بلکہ ایسا معاشرہ اخلاقیات سے محروم ہو کر طرح طرح کے عذابوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم کو لباس پہننے کا حکم دیا ہے اور ننگا رہنے سے منع فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اے اولاد آدم! ہر مسجد میں جاتے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔" (الاعراف: 7/31) اس زینت سے مراد خوبصورتی کے لیے زیور پہننا نہیں بلکہ لباس زیب تن کرنا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے امت کی رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ کون سا لباس پہنے اور کس قسم کے لباس سے پرہیز کریں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح احادیث کی روشنی میں نہ صرف لباس کے متعلق رہنمائی کی ہے بلکہ ہر چیز کے آداب سے آگاہ کیا جو انسان کے لیے باعث زینت ہے، خواہ اس کا تعلق لباس سے ہو یا جوتے سے، خواہ وہ انگوٹھی سے متعلق ہو یا دیگر زیورات سے۔ انسان کے بال بھی باعث زینت ہیں، ان کے لیے بھی احادیث کی روشنی میں قیمتی ہدایات پیش کی ہیں، پھر اس سلسلے میں خوشبو کا ذکر کیا ہے کیونکہ لوگ اسے بھی بطور زینت استعمال کرتے ہیں۔ لوگ حصول زینت کے لیے کچھ مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں بالخصوص عورتیں خود ساختہ خوبصورتی کے لیے اپنے بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے کی عادی ہوتی ہیں اور اپنے جسم کے نازک حصوں میں سرمہ بھرنے، دانتوں کو ریتی سے باریک کرنے، نیز بھوؤں کے بال اکھاڑ کر انہیں باریک کرنے کا شیوہ اختیار کرتی ہیں، ایسی عورتوں کو آگاہ کیا ہے کہ یہ تمام کام شریعت میں انتہائی مکروہ، ناپسندیدہ اور باعث لعنت ہیں۔ آخر میں فتنۂ تصویر کا جائزہ لیا ہے کہ انسان اپنی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے اپنی خوبصورت تصویر بنواتا ہے، پھر اسے کسی نمایاں جگہ پر آویزاں کرتا ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس تصویر کے متعلق شرعی احکام بیان کیے ہیں۔ دوران سفر تو سواری ایک انسانی ضرورت ہے لیکن بطور زینت بھی سواری کی جاتی ہے، اس کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں وہ بھی بیان کی ہیں۔ ان ہدایات و آداب کے لیے انہوں نے دو سو بائیس (222) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے، جن میں چھیالیس (46) معلق اور ایک سو چھہتر (176) متصل سند سے ذکر کی ہیں، پھر ایک سو بیاسی (182) احادیث مکرر اور چالیس (40) احادیث ایسی ہیں جنہیں اس عنوان کے تحت پہلی مرتبہ بیان کیا ہے۔ مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام اور تابعین عظام سے انیس (19) آثار بھی ذکر کیے ہیں۔ انہوں نے ان احادیث و آثار پر ایک سو تین (103) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کر کے لباس اور سامان آرائش کے متعلق احکام و مسائل کا استنباط کیا ہے۔ لباس کے سلسلے میں یہ ہدایات نمایاں طور پر ذکر کی ہیں کہ اسے فخر و مباہات اور تکبر و غرور کا ذریعہ نہ بنایا جائے کیونکہ یہ عادت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے اور ایسے لباس جو انسان کو اس بیماری میں مبتلا کرتے ہیں، مثلاً: چلتے وقت اپنی چادر یا شلوار کو زمین پر گھسیٹتے ہوئے چلتے ہیں، یہ متکبرین کی خاص علامت ہے، اس کے متعلق متعدد ایسی احادیث بیان کی ہیں جو اس عادت بد کے لیے بطور وعید ہیں۔ نسوانی وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بے پردگی اور بے حیائی کے لباس کو بھی زیر بحث لائے ہیں۔ مردوزن کے لباس میں جو فرق ہے اسے بطور خاص بیان کیا ہے کیونکہ مردوں کو عورتوں کا لباس اور عورتوں کو مردوں کا لباس پہننے کی سخت ممانعت ہے۔ ہم آئندہ اس اصول کے فوائد کے تحت مزید وضاحت کریں گے۔قارئین کرام سے درخواست ہے کہ وہ اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کا مطالعہ کریں جن کی ہم نے فوائد میں حسب ضرورت وضاحت بھی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پیش کردہ ہدایات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے تاکہ ہم قیامت کے دن سرخرو اور کامیاب ہوں۔ اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه و أرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه و صلی الله علی نبيه محمد و آله و أصحابه أجمعين
تمہید باب
وضاحت: "بعضهم" سے مراد امام شعبی رحمہ اللہ ہیں جیسا کہ مصنف ابن ابی شیبہ میں اس کی صراحت ہے۔ (المصنف لابن ابی شیبۃ: 8/373، رقم: 25985، و فتح الباری: 10/487)
بعض نے کہا ہے کہ جانور کے مالک کو جانور پر آگے بیٹھنے کا زیادہ حق ہے ۔ البتہ اگر وہ کسی دوسرے کو ( آگے بیٹھنے کی ) اجازت دے تو جائز ہے ۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ایوب سے روایت ہے کہ عکرمہ کے پاس ذکر کیا گیا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا بہت معیوب ہے تو انہوں نے کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے جبکہ قثم کو آگے اور فضل کو اپنے پیچھے بٹھائے ہوئے تھے یا اس کے برعکس فضل کو آگے اور قثم کو پیچھے بٹھایا تھا۔ اب ان میں سے کون برا ہے اور کون اچھا ہے؟
حدیث حاشیہ:
(1) حضرت عکرمہ کے پاس اس بات کا ذکر ہوا کہ ایک سواری پر تین آدمیوں کا بیٹھنا انتہائی معیوب ہے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کا حوالہ دیا اور اس موقف کی تردید کی۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ سواری کے آگے بیٹھنے کا حق تو مالک کو ہے ہاں اگر وہ خود اس حق سے دستبردار ہو جائے تو کوئی دوسرا بھی آگے بیٹھ سکتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت قثم یا حضرت فضل کو آگے بٹھایا تھا۔ اس حدیث سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مسئلہ ایک دوسری حدیث میں بیان ہوا ہے۔ وہ اس طرح کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل رہے تھے، ایک آدمی گدھے پر سوار وہاں سے گزرا تو اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ سوار ہو جائیں اور وہ پیچھے ہٹ گیا۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس کے آگے بیٹھنے کا زیادہ حق دار ہے ہاں، اگر تو اگلا حصہ میرے لیے خوشی سے مخصوص کر دے تو ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے کہا: میں نے آپ کے لیے کر دیا ہے تو آپ آگے سوار ہو گئے۔ (سنن أبي داود، الجھاد، حدیث: 2572) (3) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مالک، اپنی سواری پر آگے بیٹھنے کا اس لیے زیادہ حق دار ہے کہ آگے بیٹھنا انسان کے لیے باعث شرف ہے اور وہ مالک ہونے کی حیثیت سے اس شرف کا زیادہ حق دار ہے، پھر اسے راستے کے نشیب و فراز کا علم ہوتا ہے اور جانور کب اور کیسے موڑنا ہے یہ تمام خدمات آگے بیٹھ کر ہی سر انجام دی جا سکتی ہیں۔ (فتح الباري: 10/488)
ترجمۃ الباب:
بعض نے کہا ہے کہ سواری کا مالک آگے بیٹھنے کا زیادہ مستحق ہے ہاں اگر وہ کسی کو آگے بیٹھنے کی اجازت دے دے تو جائز ہے
حدیث ترجمہ:
مجھ سے محمدبن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب نے، کہا ہم سے ایوب سختیانی نے کہ عکرمہ کے سامنے یہ ذکر آیا کہ تین آدمی جو ایک جانور پر چڑھیں اس میں کون بہت برا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ (مکہ مکرمہ) تشریف لائے تو آپ قثم بن عباس کو اپنی سواری پر آگے اور فضل بن عباس کو پیچھے بٹھائے ہوئے تھے۔ یا قثم پیچھے تھے اور فضل آگے تھے۔ اب تم ان میں سے کسے برا کہو گے اور کسے اچھا۔
حدیث حاشیہ:
یہ کہنا کہ آگے والا برا ہے یا بیچ والا یا پیچھے والا یہ سب غلط ہے۔ ایک سواری پر تین آدمیوں کو ایک ساتھ بٹھانے کی ممانعت صرف اس وجہ سے ہے کہ جانور پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ہو۔ اب یہ حالات پر موقوف ہے کہ کس جانور پر کتنے آدمی بیٹھ سکتے ہیں۔ اگر کوئی جانور ایک شخص کا بھی بوجھ نہیں اٹھا سکتا تو ایک کا بیٹھنا بھی اس پر منع ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Aiyub (RA) : The worst of three (persons riding one, animal) was mentioned in 'Ikrima's presence 'Ikrima said, "Ibn 'Abbas (RA) said, '(In the year of the conquest of Makkah) the Prophet (ﷺ) came and mounted Qutham in front of him and Al-Fadl behind him, or Qutham behind him and Al-Fadl in front of him.' Now which of them was the worst off and which was the best?"