باب: اس بارے میں کہ مسئلے مسائل کی باتیں اور نیک باتیں عشاء کے بعد بھی کرنا درست ہے۔
)
Sahi-Bukhari:
Times of the Prayers
(Chapter: Talking about the Islamic jurisprudence and good things after the 'Isha prayer)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
601.
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد نبی ﷺ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’تم اس رات کی اہمیت کو جانتے ہو؟ آج کی رات سے سو برس بعد کوئی شخص جو اب زمین پر موجودہے، زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ لوگ نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے پریشان ہونے لگے اور سو برس کی وضاحت کرنے میں دوسری باتوں کی طرف خیال دوڑانا شروع کر دیا، حالانکہ نبی ﷺ کے اس فرمان: ’’جو آج روئے زمین پر زندہ ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ سو برس تک یہ صدی ختم ہو جائے گی۔
تشریح:
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے صرف یہ مقصود ہے کہ علمی مذاکرات کو سمر بعد العشاء کے تحت نہ سمجھا جائے بلکہ ایسی مجالس کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دعوتی اجتماعات رات گئے تک جاری رہیں۔ پوری پوری رات وعظ و ارشاد کی مجالس میں لگا دینا کوئی خدمت دین نہیں۔ اس حدیث کے تحت حیاتِ خضر کا مسئلہ بھی آتا ہے، چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس کے متعلق تفصیلی گفتگو آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ وبالله التوفيق.
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
597
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
601
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
601
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
601
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے جن وانس کی پیدائش کا مقصد یہ بیان کیا ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں۔ارشادباری تعالیٰ ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ﴿٥٦﴾ (سورۃ الذاریات: 56:51)'' میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔''اس آیت کی روسے یان کرتے ہیں۔اس کے لیے آپ نے مواقیت الصلاۃ کا عنوان قائم کیا ہے۔مواقیت میقات کی جمع ہے۔لغوی طور پر میقات سے مراد وہ وقت یا جگہ ہے جس کے ذریعے سے کسی چیز کی حد بندی کی جائے،مثلا: یلملم اور قرن منازل وغیرہ حاجیوں کے لیے احرام باندھنے کی میقات ہیں، اسی طرح نمازوں کے اوقات بھی ان نمازوں کے لیے میقات ہیں،لیکن نمازوں کے ان اوقات میں توازن نہیں ہے کیونکہ صبح سے ظہر تک کا طویل عرصہ عبادت سے خالی ہے۔علمائے امت نے اس کی متعدد عقلی وجوہات بیان کی ہیں:٭ دن کا آدھا حصہ راحت و آرام کے لیے اور عشاء تک اللہ کی عبادت کے لیے مختص کردیا گیا ہے۔٭ دن اور رات کے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ایک تہائی تقریبا(8) گھنٹے معاشی ضروریات کے لیے،دوسرا ثلث،یعنی عشاء تک نمازوں کے لیے، اس کے بعد آخری ثلث راحت وآرام کے لیے ہے۔''والثلث كثير کے پیش نظر جو ثلث عبادت کے لیے مختص تھا اسے شریعت نے اکثر احکام میں کل کے برابر قرار دیا ہے،اس لیے گویا پورا وقت عبادت کا بھی،معاشی ضروریات کا بھی اور آرام و سکون کابھی ہے۔پھر یہ اوقات نماز ایسی حکمت سے مقرر کیے گئے ہیں کہ نماز سے جو مقاصد وابستہ ہیں وہ بھی پورے ہوں اور دوسری ذمے داریوں کی ادائیگی میں بھی کوئی خلل نہ پڑے،چنانچہ صبح نیند سے اٹھنے کے بعد صبح صادق کے وقت نماز فجر فرض کی گئی ہے تاکہ اٹھتے وقت پہلاکام اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اظہار بندگی ہو،پھر زوال آفتاب تک کوئی نماز فرض نہیں تاکہ ہر شخص اپنے حالات کے مطابق اپنی دیگر حوائج و ضروریات اور ذمے داریوں کو اس طویل وقفے میں سرانجام دے سکے،پھر پورے آدھے دن کے اس طویل وقفے کے بعد نماز ظہر فرض کی گئی تاکہ غفلت یا اللہ کی بارگاہ سے غیر حاضری کی مدت زیادہ طویل نہ ہو۔اس کے بعد شام کے آثارشروع ہونے لگے تو نماز عصر فرض کردی گئی تاکہ اصل خاص وقت میں جو اکثر لوگوں کے لیے اپنے کاموں سے فرصت پانے اور تفریحی مشاغل میں ہونے کا وقت ہوتا ہے،اہل ایمان اپنے ظاہر باطن سے رب قدوس کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اس کی عبادت میں مصروف ہوں۔پھر دن کے اختتام پر غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب فرض کی گئی تاکہ دن کے خاتمےاور رات کے آغاز کے وقت اپنے پروردگار کی تسبیح اور بندگی کے عہد کی تجدید ہو۔اس کے بعد سونے کے وقت سے پہلے نماز عشاءفرض کی گئی تاکہ روزانہ زندگی میں ہمارا آخری عمل نماز ہو۔پھر ان پانچوں نمازوں کے اوقات میں بھی کافی وسعت دی گئی ہے کہ ہم اپنے وقتی حالات اور ہنگامی ضروریات کے مطابق اول وقت،درمیانے وقت اور آخر وقت میں نماز ادا کرسکیں اگرچہ بہتر،اول وقت نماز پڑھنا ہی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت صرف اوقات نماز ہی ذکر نہیں کیے بلکہ ان کی اہمیت،فضیلت اور افادیت کو بھی بیان کیا ہے اور اوقات نماز کے بڑے عنوان کے تحت (41) چھوٹے چھوٹے عنوانات قائم کیے ہیں جن میں نماز بروقت پڑھنے کی اہمیت،نماز کے کفارۂ سیئات بننے کی صلاحیت،پھر نماز کو دیر سے ادا کرنے کے بھیانک نتائج سےخبردار فرمایا ہے اور اس حقیقت سے بھی آگاہ کیا ہے کہ نماز ہی ایک ایسی چیز ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے رازونیاز اور مناجات کے لیے مختص کیا ہے۔بعض اوقات انسان نیند کی حالت میں یا بھول کر اصل وقت کھو بیٹھتا ہے،اسے نماز کب اور کیسے ادا کرنا ہے؟اس سلسلے میں امام بخاری رحمہ اللہ نے قرآنی آیات اور احادیث وآثار سے مکمل رہنمائی فرمائی ہے،جن اوقات میں عبادت نہیں کی جاسکتی وہ بھی تفصیل سے ذکر کیے ہیں۔الغرض امام بخاری نماز کے اوقات کے علاوہ دیگرآداب و شرائط اور لوازمات بھی زیر بحث لائے ہیں جو یقینا مطالعے کے دوران میں قاری کی معلومات میں اضافے کا باعث ہوں گے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس عنوان کے تحت (117) احادیث بیان کی ہیں جن میں (36) معلق اور(81)موصول ہیں،پھر(69) مکرر اور (48) خالص احادیث ذکر کی ہیں۔ان میں تیرہ احادیث کےعلاوہ باقی احادیث کو مسلم نے بھی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے۔واضح رہے کہ ان میں تین آثار صحابہ کے علاوہ دیگر تمام روایات مرفوع ہیں۔الغرض امام بخاری رحمہ اللہ نے'' کتاب المواقیت'' میں اوقات نماز کے علاوہ بے شمار فقہی دقائق اور اسنادی حقائق کو بیان کیا ہے۔قارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ ہماری معروضات کوذہن میں رکھتے ہوئے کتاب المواقیت کا مطالعہ کریں تاکہ اس عظیم اور نامور محدث کی دقت فہم اور ندرت فکر سے آگاہ ہوسکیں۔والله يهدي من يشاء إلی سواء السبيل نوٹ: واضح رہے کہ ہم نے سرزمین حجاز کے نامور عالم دین فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے رسالے (مواقيت الصلاة) كا اُردو ترجمہ بھی موقع و محل کے اعتبار سے فوائد میں سمودیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی، سلام پھیرنے کے بعد نبی ﷺ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: ’’تم اس رات کی اہمیت کو جانتے ہو؟ آج کی رات سے سو برس بعد کوئی شخص جو اب زمین پر موجودہے، زندہ نہیں رہے گا۔‘‘ لوگ نبی ﷺ کے اس ارشاد گرامی کی وجہ سے پریشان ہونے لگے اور سو برس کی وضاحت کرنے میں دوسری باتوں کی طرف خیال دوڑانا شروع کر دیا، حالانکہ نبی ﷺ کے اس فرمان: ’’جو آج روئے زمین پر زندہ ہیں ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔‘‘ اس سے آپ کی مراد یہ تھی کہ سو برس تک یہ صدی ختم ہو جائے گی۔
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے صرف یہ مقصود ہے کہ علمی مذاکرات کو سمر بعد العشاء کے تحت نہ سمجھا جائے بلکہ ایسی مجالس کے انعقاد میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ دعوتی اجتماعات رات گئے تک جاری رہیں۔ پوری پوری رات وعظ و ارشاد کی مجالس میں لگا دینا کوئی خدمت دین نہیں۔ اس حدیث کے تحت حیاتِ خضر کا مسئلہ بھی آتا ہے، چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں۔ اس کے متعلق تفصیلی گفتگو آئندہ پر اٹھا رکھتے ہیں۔ وبالله التوفيق.
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ بن عمر ؓ اور ابوبکر بن ابی حثمہ نے حدیث بیان کی کہ عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ نے عشاء کی نماز پڑھی اپنی زندگی کے آخری زمانے میں۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اس رات کے متعلق تمہیں کچھ معلوم ہے؟ آج اس روئے زمین پر جتنے انسان زندہ ہیں۔ سو سال بعد ان میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا۔ لوگوں نے آنحضور ﷺ کا کلام سمجھنے میں غلطی کی اور مختلف باتیں کرنے لگے۔ ( ابومسعود ؓ نے یہ سمجھا کہ سو برس بعد قیامت آئے گی ) حالانکہ آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ جو لوگ آج ( اس گفتگو کے وقت ) زمین پر بستے ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی آج سے ایک صدی بعد باقی نہیں رہے گا۔ آپ ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ سو برس میں یہ قرن گزر جائے گا۔
حدیث حاشیہ:
سب سے آخر میں انتقال کرنے والے صحابی ابوالطفیل عامر بن واثلہ ؓ ہیں۔ اور ان کا انتقال 110ھ میں ہوا۔ یعنی آنحضور ﷺ کی پیشین گوئی کے ٹھیک سوسال بعد۔ کچھ لوگوں نے اس حدیث کو سن کر یہ سمجھ لیا تھا کہ سوسال بعد قیامت آجائے گی۔ حدیث نبوی کا منشاء یہ نہ تھا بلکہ صرف یہ تھا کہ سوبرس گزرنے پر ایک دوسری نسل وجود میں آگئی ہوگی۔ اورموجودہ نسل ختم ہوچکی ہوگی۔ حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated 'Abdullah bin 'Umar (RA): The Prophet (ﷺ) prayed one of the 'lsha' prayer in his last days and after finishing it with Taslim, he stood up and said, "Do you realize (the importance of) this night? Nobody present on the Surface of the earth to-night would be living after the completion of one hundred years from this night." The people made a mistake in grasping the meaning of this statement of Allah's Apostle (ﷺ) and they indulged in those things which are said about these narrators (i.e. some said that the Day of Resurrection will be established after 10O years etc.) But the Prophet (ﷺ) said, "Nobody present on the surface of earth tonight would be living after the completion of 10O years from this night"; he meant "When that century (people of that century) would pass away."