باب:اللہ تعالیٰ کا سورۃ نساءمیں فرمان کہ جو کوئی سفارش کرے نیک کام کے لیے اس کو بھی اس میں ثواب کا ایک حصہ ملے گا اورجو کوئی سفارش کرے برے کام میں ا سکو بھی حصہ اس کے عذاب سے ملے گا اورہر چیز پر اللہ نگہبان ہے
)
Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: "Whosoever intercedes for a good cause will have the reward thereof...")
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
” کفل “ کے معنی اس آیت میں حصہ کے ہیں ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہا کہ ” حبشی زبان میں کفلین “ کے معنی دواجر کے ہیں ۔شفاعۃ حسنۃ سے مومنوں کے لیے دعائے خیر اور سیئۃ سے بد دعا کرنا بھی مراد ہے۔ مجاہد وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ آیت لوگوں کی باہمی شفاعت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ابن عادل نے کہا ہے کہ اکثر لفظ کفل کا استعمال محل شر میں ہوتا ہے۔ اور لفظ نصیب کا استعمال محل خیر میں ہوتاہے۔
6027.
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس جب کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو فرماتے: اس کی سفارش کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان کے زریعے سے جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔
تشریح:
آیت کریمہ کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو دوبارہ اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ بتایا جائے کہ سفارش کی دوقسمیں ہیں، جس سفارش پر اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس سے مراد اچھے کام کی سفارش ہے۔ سفارش حسنہ، یعنی اچھے کام کی سفارش کا ضابطہ یہ ہے کہ ایسے کام کی سفارش ہو جس کی شرعاً اجازت ہے۔ جس کام کی شرعی طور پر اجازت نہیں، اس کی سفارش کرنا بھی جائز نہیں بلکہ وہ بری سفارش ہے جس پر سفارش کرنے والا گناہ کا حقدار ہوگا۔ واللہ أعلم(فتح الباري:555/10)
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5805
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6028
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6028
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6028
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
تمہید باب
سفارش کرنے پر اجر کا حق دار ہونا علی الاطلاق نہیں ہے بلکہ اس سفارش پر اجر ملے گا جو اچھے کام کے لیے ہو،اگر کوئی برے کام کے لیے سفارش کرتا ہے تو اسے گناہ حاصل ہوگا۔(فتح الباری: 10/555)
” کفل “ کے معنی اس آیت میں حصہ کے ہیں ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے کہا کہ ” حبشی زبان میں کفلین “ کے معنی دواجر کے ہیں ۔شفاعۃ حسنۃ سے مومنوں کے لیے دعائے خیر اور سیئۃ سے بد دعا کرنا بھی مراد ہے۔ مجاہد وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ آیت لوگوں کی باہمی شفاعت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ۔ ابن عادل نے کہا ہے کہ اکثر لفظ کفل کا استعمال محل شر میں ہوتا ہے۔ اور لفظ نصیب کا استعمال محل خیر میں ہوتاہے۔
حدیث ترجمہ:
حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے پاس جب کوئی سائل یا حاجت مند آتا تو فرماتے: اس کی سفارش کرو تمہیں اس کا اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی زبان کے زریعے سے جو چاہے فیصلہ کرتا ہے۔
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ کے بعد حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو دوبارہ اس لیے ذکر کیا ہے تاکہ بتایا جائے کہ سفارش کی دوقسمیں ہیں، جس سفارش پر اجرو ثواب کا وعدہ ہے اس سے مراد اچھے کام کی سفارش ہے۔ سفارش حسنہ، یعنی اچھے کام کی سفارش کا ضابطہ یہ ہے کہ ایسے کام کی سفارش ہو جس کی شرعاً اجازت ہے۔ جس کام کی شرعی طور پر اجازت نہیں، اس کی سفارش کرنا بھی جائز نہیں بلکہ وہ بری سفارش ہے جس پر سفارش کرنے والا گناہ کا حقدار ہوگا۔ واللہ أعلم(فتح الباري:555/10)
ترجمۃ الباب:
(اس آیت کریمہ میں) ”کفل“ کے معنیٰ ہیں حصہ حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓنے فرمایا: حبشی زبان میں ”کفلین“ کے معنی ہیں دواجر۔
حدیث ترجمہ:
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید نے، ان سے ابو بردہ نے اور ان سے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ نے کہ بنی کریم ﷺ کے پاس جب کوئی مانگنے والا یا ضرورت مند آتا تو آپ فرماتے کہ لوگو! تم سفارش کرو تاکہ تمہیں بھی ثواب ملے اوراللہ اپنے نبی کی زبان پر جو چاہے گا فیصلہ کرائے گا۔
حدیث حاشیہ:
آیت اور حدیث میں نیک کام کی سفارش کرنے کی ترغیب ہے، ہوگا وہی جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے مگر سفارش کرنے والے کو اجر ضرور مل جائے گا۔ دوسری روایت میں یہ مضمون یوں ادا ہوا ہے۔ ''الدالُ علی الخیرِ کَفاعلِهِ'' خیر کے لئے رغبت دلانے والے کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا اس کے کرنے والے کو ملے گا۔ کاش خواص اگر اس پر توجہ دیں تو بہت سے دینی امور اور امدادی کام انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ مگر بہت کم خواص اس پر توجہ دیتے ہیں۔ یا اللہ! تیری مدد اور نصرت کے بھروسے سے بخاری شریف کے اس پارے نمبر 25 کی تسوید کے لیے قلم ہاتھ میں لی ہے۔ پروردگار اپنی مہربانی سے اس کو بھی پورا کرنے کی سعادت عطا فرما اور اس کی اشاعت کے لئے غیب سے مددکرتا کہ میں اسے اشاعت میں لا کر تیرے حبیب حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کی تبلیغ واشاعت کا ثواب عظیم حاصل کر سکوں آمین یا رب العالمین (نا چیز محمد داؤد راز نزیل الحال جامع اہل حدیث بنگلور 15 رمضان المبارک 1395ھ)
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Abu Musa (RA) : Whenever a beggar or a person in need came to the Prophet, the Prophet (ﷺ) would say "Help and recommend him and you will receive the reward for it, and Allah will bring about what he will through His Prophet's tongue