Sahi-Bukhari:
Good Manners and Form (Al-Adab)
(Chapter: Calling bad names and cursing)
مترجم: ١. شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد (دار السلام)
ترجمۃ الباب:
6050.
حضرت معرور سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ذر ؓ پر ایک چادر دیکھی اور ان کے غلام نے بھی اسی طرح کی چادر اوڑھ رکھی تھی میں نے کہا: اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیں اور اسے زیب تن کریں تو آپ کے لیے ایک رنگ کا جوڑا ہو جائے اور اپنے غلام کو کوئی دوسرا جوڑا پہنا دیں انہوں نے بتایا کہ میرے اور ایک آدمی کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی تھی اس کی والدہ عجمیہ تھی۔ میں نے اس کے متعلق اسے طعنہ دے دیا۔ اس نے یہ بات نبی ﷺ سے کہہ دی تو آپ نے مجھے فرمایا: ”تو نے فلاں شخص کو گالی دی ہے؟ میں نے کہا : جی ”ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو نے اس کی ماں کو بھی مطعون کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے اندر ابھی دور جاہلیت کی خو باقی ہے۔ میں نے عرض کی: اس وقت بھی جبکہ میں بڑھاپے میں پہنچ چکا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، یاد رکھو! یہ غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالٰی نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے، لہذا جس شخص کے بھائی کو اللہ تعالٰی نے اس کے زیردست کر دیا ہوا سے وہ کچھ کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اسے کسی ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو اس گراں بار ہو۔ اگر ایسا کام اسے کہے جو اس کے بس میں نہ ہو تو وہ کام نمٹانے میں اس کا تعاون کرے۔“
تشریح:
(1) جس آدمی سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی تکرار ہوئی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ ماجدہ حبشہ کی رہنے والی سیاہ فام تھی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر انھیں ماں کا طعنہ دیتے ہوئے کہا: اے سیاہ لونڈی کے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گالی سے تعبیر فرمایا اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارے اندر ابھی دور جاہلیت کی بو باقی ہے، حالانکہ تم بوڑھے ہو چکے ہو۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کسی کو اس کی ماں کی وجہ سے طعنہ دینا بہت بری بات ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا بلکہ ایسا کرنے پر برملا اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ (فتح الباري:574/10) اس کے بعد حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا معمول بنا لیا کہ جو خود پہنتے ویسا ہی اپنے غلاموں کو پہناتے، لیکن آج ایسے لوگ نایاب ہیں جو اپنے نوکروں اور ماتحت عملے سے ایسا برتاؤ کریں۔ واللہ المستعان
ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
5827
٧
ترقيم دار طوق النّجاة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)
ترقیم دار طوق النجاۃ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)
6050
٨
ترقيم فؤاد عبد الباقي (دار السلام)
ترقیم فواد عبد الباقی (دار السلام)
6050
١٠
ترقيم فؤاد عبد الباقي (داود راز)
ترقیم فواد عبد الباقی (داؤد راز)
6050
تمہید کتاب
اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے۔اس دین میں حق بنیادی چیز توحید وایمان کی دعوت ہے۔جو خوش قسمت شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بنیادی دعوت کو قبول کرلے اسے عملی زندگی گزارنے کے لیے ہدایات دی جاتی ہیں۔ان ہدایات کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ان میں بتایا جاتا ہے کہ بندوں پر اللہ تعالیٰ کا کیا حق ہے؟اور اس سلسلے میں بندوں کے فرائض وواجبات کیا ہیں؟پھر ان حقوق واجبات کو ادا کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟٭ وہ ہدایات جن کا تعلق بندوں پر بندوں کے حقوق سے ہے،یعنی دوسرے بندوں کے کیا حقوق ہیں؟اور اس دنیا میں جب ایک انسان دوسرے سے کوئی معاملہ کرتا ہے تو اسے کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟پھر اس کے متعلق اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں؟انھیں حقوق العباد کہتے ہیں۔حقوق العباد کا معاملہ اس اعتبار سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ اگر ان حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی ہوجائے،یعنی کسی بندے کی حق تلفی یا اس پر ظلم وزیادتی ہوجائے تو اس کی تلافی کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں نہیں رکھا بلکہ تلافی کی یہ صورت ہے کہ دنیا میں اس بندے کا حق ادا کردیا جائے یا اس سے معافی حاصل کرلی جائے۔اگر دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ بن سکی تو آخرت میں اپنی نیکیاں دے کر یا اس کی برائیاں لے کر معاملہ طے کیا جائے گا لیکن وہاں یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا کیونکہ محنت ومشقت سے کمائی ہوئی اپنی نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اور ناکردہ گناہوں کو اپنے کھاتے میں ڈالنا ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: "جس کسی نے اپنی بھائی کے ساتھ ظلم وزیادتی کی ہو،اس کی عزت پر حملہ کیا ہو یا کسی دوسرے معاملے میں اس کی حق تلفی کی ہو تو اسے چاہیے کہ یوم آخرت سے پہلے پہلے اسی زندگی میں اس کے ساتھ اپنا معاملہ صاف کرلے۔آخرت میں کسی کے پاس درہم ودینار نہیں ہوں گے بلکہ اس کے پاس اگر نیک اعمال ہیں تو بقدر ظلم،مظلوم کو اس کے نیک اعمال دیے جائیں گے اور اگر نیکیوں سے خالی ہاتھ ہوگا تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر لاددیے جائیں گے۔"(صحیح البخاری، المظالم، حدیث:2449)پھر حقوق العباد کے دوحصے حسب ذیل ہیں:٭ ایک وہ حقوق ہیں جن کا تعلق آپس کے لین دین اور معاملات سے ہے، مثلاً: خریدوفروخت، تجارت وزراعت، قرض وامانت، ہبہ ووصیت،محنت ومزدوری یا آپس کے اختلافات اور جھگڑوں میں عدل وانصاف اور شہادت ووکالت سے متعلق ہیں۔انھیں مالی حقوق یا معاملات کا نام دیا جاتا ہے۔٭دوسرے وہ حقوق ہیں جن کا تعلق معاشرتی آداب واحکام سے ہے، مثلاً: والدین، زوجین، عزیزو اقارب، چھوٹوں، بڑوں، پڑوسیوں، محتاج لوگوں اور ضرورت مند کے ساتھ کیا رویہ اور کیسا برتاؤ ہونا چاہیے ۔اس کے علاوہ آپس میں ملنے جلنے،اٹھنے بیٹھنے کے مواقع پر کن آداب واحکام کی پابندی ضروری ہے۔ان حقوق کو ہم آداب واخلاق یا معاشرت کا نام دیتے ہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الادب میں حقوق العباد کے اس دوسرے حصے کو بیان کیا ہے۔ادب کے لغوی معنی ہیں جمع کرنا۔لوگوں کو طعام کے لیے جمع کرنا اور انھیں کھانے کے لیے بلانے کے معنی میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے،اسی لیے خوشی کے موقع پر جو کھانا تیار کیا جاتا ہے اسے عربی زبان میں مادبه کہتے ہیں۔لفظ ادب بھی مأدبہ سے ماخوز ہے کیونکہ اس میں اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے کی دعوت دی جاتی ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: "قابل تعریف گفتارو کردار کو عمل میں لانے کا نام ادب ہے" کچھ حضرات نے کہا ہے کہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ادب ہے جبکہ کچھ اہل علم کا خیال ہے کہ چھوٹے سے نرمی اور بڑے کی تعظیم ادب ہے۔"(فتح الباری:10/491) اسلامی تعلیمات سے مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا نظام ادب وترتیت نہایت جامع، ہمہ گیر اور انتہائی مؤثر ہے۔دنیا کا کوئی بھی مذہب اس طرح کی جامع تعلیمات پیش کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اسلام میں زندگی کے ہر گوشے کے متعلق آداب موجود ہیں۔حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "دین اسلام سراپا ادب ہے۔"(مدارج الساکین:2/363)اس طرح انھوں نے امام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا ایک انتہائی خوبصورت اور قیمتی مقولہ پیش کیا ہے: "ہمیں بہت زیادہ علم کے بجائے تھوڑے سے ادب کی زیادہ ضرورت ہے۔"(مدارج الساکین:2/356)امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں ہماری مکمل رہنمائی فرمائی ہے۔انھوں نے ایک جامع نظام اخلاق و آداب امت کے حوالے کیا ہے جسے ہم دوحصوں میں تقسیم کرتے ہیں:٭ آدابِ حقوق٭ اخلاق وکردار۔ ان کی پیش کردہ احادیث دو طرح کی ہیں:ایک وہ جن میں اصولی طور پر اخلاق وآداب پر زور دیا گیا ہے اور ان کی اہمیت وفضیلت اور ان کا غیر معمولی اخروی ثواب بیان کیا گیا ہے۔دوسری وہ احادیث ہیں جن میں خاص خاص حقوق وآداب اختیار کرنے یا بعض اخلاق وکردار سے بچنے کی تاکید بیان ہوئی ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے نظام اخلاق وآداب کے لیے دو سوچھپن (256) مرفوع احادیث کا انتخاب کیا ہے جن میں پھچتر (75) معلق اور ایک صداکیاسی(81) احادیث متصل سند سے بیان کی ہیں،پھر ان میں دوسو ایک(201) حدیثیں مکرر ہیں اور باقی پچپن(55) احادیث خالص ہیں۔امام مسلم رحمہ اللہ نے انیس (19) احادیث کے علاوہ امام بخاری رحمہ اللہ کی پیش کردہ احادیث کو بیان کیا ہے،پھر انھوں نے مرفوع احادیث کے علاوہ مختلف صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہ اللہ سے منقول گیارہ(11) آثار پیش کیے ہیں۔آپ کی فقاہت اور قوت استنباط کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان احادیث وآثار سے بیسوں آداب واخلاق کو ثابت کرتے ہوئے ایک سو اٹھائیس (128) چھوٹے چھوٹے عنوان قائم کیے ہیں۔بہرحال آداب زندگی کو اختیار کرنا اخروی سعادت کا باعث ہے۔انھیں اختیار کرنے سے قلبی سکون اور راحت ملتی ہے،اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کے لیے بھی راحت وچین کا سامان مہیا ہوگا اور ان آداب سے محرومی اخروی سعادت سے محرومی کا ذریعہ ہے،نیز دنیاوی زندگی بھی بے چینی سے گزرے گی اور دوسروں کی زندگیاں بھی بے مزہ اور تلخ ہوں گی۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھے اخلاق وآداب بجالانے کی توفیق دے اور برے کردار وگفتار سے ہمیں محفوظ رکھےقارئین کرام سے گزارش ہے کہ وہ پیش کردہ احادیث کا مطالعہ خالص " علمی سیر" کے طور پر ہر گز نہ کریں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے، ان پر عمل کرنے اور ان سے ہدایت حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔اگر ایسا کیا گیا تو امید ہے کہ ان انوار برکات سے ہم جلد مالا مال ہوں گے جن کی ہمیں دنیا وآخرت میں بہت ضرورت ہے۔
حضرت معرور سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابو ذر ؓ پر ایک چادر دیکھی اور ان کے غلام نے بھی اسی طرح کی چادر اوڑھ رکھی تھی میں نے کہا: اگر آپ اپنے غلام کی چادر لے لیں اور اسے زیب تن کریں تو آپ کے لیے ایک رنگ کا جوڑا ہو جائے اور اپنے غلام کو کوئی دوسرا جوڑا پہنا دیں انہوں نے بتایا کہ میرے اور ایک آدمی کے درمیان کچھ تکرار ہو گئی تھی اس کی والدہ عجمیہ تھی۔ میں نے اس کے متعلق اسے طعنہ دے دیا۔ اس نے یہ بات نبی ﷺ سے کہہ دی تو آپ نے مجھے فرمایا: ”تو نے فلاں شخص کو گالی دی ہے؟ میں نے کہا : جی ”ہاں۔ آپ نے فرمایا: تو نے اس کی ماں کو بھی مطعون کیا ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تمہارے اندر ابھی دور جاہلیت کی خو باقی ہے۔ میں نے عرض کی: اس وقت بھی جبکہ میں بڑھاپے میں پہنچ چکا ہوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، یاد رکھو! یہ غلام بھی تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالٰی نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے، لہذا جس شخص کے بھائی کو اللہ تعالٰی نے اس کے زیردست کر دیا ہوا سے وہ کچھ کھلائے جو وہ خود کھاتا ہے اور اسے وہی پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے اور اسے کسی ایسے کام کی تکلیف نہ دے جو اس گراں بار ہو۔ اگر ایسا کام اسے کہے جو اس کے بس میں نہ ہو تو وہ کام نمٹانے میں اس کا تعاون کرے۔“
حدیث حاشیہ:
(1) جس آدمی سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی تکرار ہوئی تھی وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے، ان کی والدہ ماجدہ حبشہ کی رہنے والی سیاہ فام تھی۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے غصے میں آ کر انھیں ماں کا طعنہ دیتے ہوئے کہا: اے سیاہ لونڈی کے بیٹے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گالی سے تعبیر فرمایا اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تمہارے اندر ابھی دور جاہلیت کی بو باقی ہے، حالانکہ تم بوڑھے ہو چکے ہو۔ (2) امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے مقصود یہ ہے کہ کسی کو اس کی ماں کی وجہ سے طعنہ دینا بہت بری بات ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا بلکہ ایسا کرنے پر برملا اپنی ناراضی کا اظہار کیا۔ (فتح الباري:574/10) اس کے بعد حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اپنی زندگی کا معمول بنا لیا کہ جو خود پہنتے ویسا ہی اپنے غلاموں کو پہناتے، لیکن آج ایسے لوگ نایاب ہیں جو اپنے نوکروں اور ماتحت عملے سے ایسا برتاؤ کریں۔ واللہ المستعان
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
مجھ سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہاہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے معرور نے اور ان سے حضرت ابو ذر ؓ نے، معرور نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر ؓ کے جسم پر ایک چادر دیکھی اور ان کے غلام کے جسم پر بھی ایک ویسی ہی چادر تھی، میں نے عرض کیا اگر اپنے غلام کی چادر لے لیں اور اسے بھی پہن لیں تو ایک رنگ کا جوڑا ہو جائے غلام کو دوسرا کپڑا دے دیں۔ حضرت ابو ذر ؓ نے اس پر کہا کہ مجھ میں اور ایک صاحب (بلال ؓ ) میں تکرار ہو گئی تھی تو ان کی ماں عجمی تھیں، میں نے اس بارے میں ان کو طعنہ دے دیا انہوں نے جا کر یہ بات بنی کریم ﷺ سے کہہ دی۔ آنحضرت ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا کیا تم نے اس سے جھگڑا کیا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ دریافت کی تم نے اسے اس کی ماں کی وجہ سے طعنہ دیا ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہارے اندر ابھی جاہلیت کی بو باقی ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس بڑھاپے میں بھی؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ہاں یاد رکھو یہ (غلام بھی) تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہاری تحتی میں دیا ہے، پس اللہ تعالیٰ جس کی تحتی میں بھی اس کے بھائی کو رکھے اسے چاہئے کہ جو وہ کھائے اسے بھی کھلائے اور جو وہ پہنے اسے بھی پہنائے اور اسے ایسا کام کرنے کے لیے نہ کہے، جو اس کے بس میں نہ ہو اگر اسے کوئی ایسا کام کرنے کے لئے کہنا ہی پڑے تو اس کام میں اس کی مدد کرے۔
حدیث حاشیہ:
اس کے بعد حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے تا حیات یہ عمل بنا لیا کہ جو خود پہنتے وہی اپنے غلاموں کو پہناتے جس کا ایک نمونہ یہاں مذکور ہے ایسے لوگ آج کل کہاں ہیں جو اپنے نوکروں خادموں کے ساتھ ایسا برتاؤ کریں۔ إلا ما شاءاللہ۔
ترجمۃ الباب:
حدیث ترجمہ:
Narrated Ma'rur (RA) : I saw Abu Dhar (RA) wearing a Burd (garment) and his slave too was wearing a Burd, so I said (to Abu Dhar (RA)), "If you take this (Burda of your slave) and wear it (along with yours), you will have a nice suit (costume) and you may give him another garment." Abu Dhar (RA) said, "There was a quarrel between me and another man whose mother was a non-Arab and I called her bad names. The man mentioned (complained about) me to the Prophet. The Prophet (ﷺ) said, "Did you abuse so-and-so?" I said, "Yes" He said, "Did you call his mother bad names?" I said, "Yes". He said, "You still have the traits of (the Pre-lslamic period of) ignorance." I said. "(Do I still have ignorance) even now in my old age?" He said, "Yes, they (slaves or servants) are your brothers, and Allah has put them under your command. So the one under whose hand Allah has put his brother, should feed him of what he eats, and give him dresses of what he wears, and should not ask him to do a thing beyond his capacity. And if at all he asks him to do a hard task, he should help him therein."